اسلام آباد (اردو ٹائمز) پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ ;اقتصادی، تزویراتی، تجارتی تعلقات کامظہر
Share

اسلام آباد (اردو ٹائمز) پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ ;اقتصادی، تزویراتی، تجارتی تعلقات کامظہرہے پاکستان کے عوام ہمیشہ دو مقدس ترین مقامات کے دفاع میں جانیں قربان کرنے کے خواہاں رہے ہیں۔ یہ معاہدہ انہی جذبات کی عکاسی کرتا ہے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گزشتہ ماہ 17 ستمبر کو تاریخی دفاعی معاہدے پر بھی دستخط ہوئے تھے۔ یہ معاہدہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ ریاض کے دوران طے پایا تھا۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ حالیہ مشترکہ دفاعی معاہدے کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین موجود اقتصادی، تزویراتی، دفاعی اور تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دے گا ایکس اکاؤنٹ پر کی گئی پوسٹ کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سے سعودی شوری کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ بن محمد بن ابراہیم الشیخ نے وفد کے ہمراہ ملاقات کی۔ملاقات میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحٰق ڈار، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی وزیرِ اعظم نے وفد کے دورہ پاکستان کا خیر مقدم کیا اور ڈاکٹر عبداللہ بن محمد بن ابراہیم الشیخ سے ملاقات کو ریاض و جدہ میں ان سے کی گئی اپنی گزشتہ ملاقاتوں کی طرح خوشگوار قرار دیا۔دوران ملاقات وزیر اعظم نے سعودی فرمانروا، خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آلسعود کیلئے نیک خواہشات کا پیغام دیا اور ان کی صحت و تندرستی کیلئے دعا کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ حالیہ مشترکہ دفاعی معاہدے کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے مابین موجود اقتصادی، تزویراتی، دفاعی اور تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دے گا۔اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ سعودی ولی عہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے سعودی عرب کی ترقی کا ویژن قابل تعریف ہے، ان کی قیادت میں سعودی عرب نے ہر شعبے میں کمال ترقی کی مثال قائم کی ہے، جو دنیا کے باقی ممالک کیلئے ایک قابل تقلید مثال ہے، اقتصادی اور سماجی شعبے کی ترقی اور خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے مثالی اقدامات کئے گئے ہیں.اس موقع پر سعودی شوریٰ کے چیئرمین نے پاکستان آمد پر شاندار مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا، انہوں نے پاکستان و سعودی عرب کے مابین حالیہ مشترکہ دفاعی معاہدے کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے عوام کے مابین دیرینہ برادرانہ تعلقات کی عکاسی ہے، انہوں نے دونوں ممالک کے مابین پارلیمانی تعلقات کی مزید مضبوطی کی اہمیت پر زور دیا رہنماؤں نے پاکستان و سعودی عرب کے درمیان پارلیمانی وفود کے تبادلوں کے فروغ پر اتفاق کیا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان وفود کا تبادلہ اور ملاقاتیں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ دونوں ملک تیزی سے اپنے اپنے اہداف کی طرف گامزن ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں دونوں ممالک میں گرمجوشی نظر آرہی ہے وزیراعظم شہباز شریف نے 2024 میں اپنی پہلی تقریر میں ہی سعودی عرب کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو نئی اقتصادی سمت دینے کی بات کی تھی۔سعودی عرب سے آئے وفود میں شامل شخصیات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ گزشتہ سالوں میں کیے گئے اقتصادی وعدوں کی تکمیل کا وقت آن پہنچا ہے، اس کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان میں عملی طور پر ایک مستقر حکومت براجمان ہوتی۔ سعودی اور پاکستانی وفود کا تبادلہ وزیراعظم شہباز شریف کی رمضان 1445 ہجری میں سعودی عرب کے پہلے دورہ سے پختہ ہوا، اور حالیہ سعودی وفد کا دورہ آگے بڑھ رہا ہے، اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ دورہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کا پیش خیمہ ثابت ہوگا یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ سعودی ولی عہد کا ممکنہ دورہ مزید تعاون پر مشتمل ہو اور ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اقتصادی تعاون میں نئی جہتیں تلاش کرکے ان پر کام کیا جائے،پاک سعودی تعلقات میں وسیع پیمانے پر کثیر الجہتی تعاون ممکن ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک میں بیٹھے ماہرین ان نئی جہتوں کو تلاش کرکے قدم آگے بڑھائیں وزیر اعظم پاکستان نے چیئرمین سعودی پاکستان بزنس کونسل سے ملاقات میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کاروبار اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر مزید مضبوط بنایا جائے گا ظہرانہ سےخطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ ’سعودی عرب نے ہر مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان- سعودی عرب دفاعی معاہدہ بھائی چارے پر مبنی تعلقات کی باقاعدہ شکل ہے پاکستان سعودی عرب اقتصادی و تجارتی فروغ کے لیے سعودی عرب کا 15 رکنی تجارتی وفد شہزادہ منصور بن محمد آل سعود کی سربراہی میں پاکستان پہنچا تھا دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے سعودی پاکستان جوائنٹ بزنس کونسل کے چیئرمین شہزادہ منصور بن محمد آل سعود سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ معاشی تعلقات میں بڑھتی ہوئی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے دونوں ممالک کے درمیان مزید تعاون کے وسیع امکانات کو اجاگر کیا۔ظہرانے کے موقع پر پاکستان- سعودی عرب جوائنٹ بزنس کونسل کے چیئرمین شہزادہ منصور بن محمد آل سعود نے کہا کہ ’پاکستان آنے سے قبل سعودی عرب کے تمام اہم وزرا سے ملاقاتیں کی ہیں، انہیں پاکستان میں ممکنہ سٹریٹجک منصوبوں سے آگاہ کیا شہزادہ منصور بن محمد آل سعود نے کہا کہ سعودی کاروباری طبقے کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو کاروبار اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر مزید مضبوط بنائیں گے۔ سعودی حکام بھی دونوں ممالک کے درمیان معاہدوں پر دستخط کے لیے بہت پرجوش ہیں وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ’ہم حقیقی بھائی ہیں اور بھائی ہمیشہ بھائی کی مدد کو آتا ہے، سعودی بہن بھائیوں نے پاکستان کے لیے ہمیشہ بے مثال محبت کا اظہار کیا تجارتی وفد اپنے دو روزہ دورے کے دوران سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے قائم سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔ ملاقاتوں میں توانائی، اطلاعاتی ٹیکنالوجی، زراعت، مالیاتی خدمات، تعمیرات، سیمی کنڈکٹرز اور خوراک کی صنعت سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بات چیت کی جائے گی پاکستان سعودی عرب اقتصادی و تجارتی فروغ کے لیے سعودی عرب کا 15 رکنی تجارتی وفد پاکستان پہنچاہے دورے کے دوران بات چیت میں تجارت، سرمایہ کاری، سعودی ویژن 2030 اور پاکستان کے اقتصادی ترقی کے ایجنڈے کے مطابق ترجیحی شعبوں میں تعاون مدنظر رہیں گے وفد کی قیادت شہزادہ منصور بن محمد آل سعود کر رہے ہیں وفد میں کاروباری شخصیات اور صنعت کار شامل ہیں یہ دورہ پاکستان اور مملکت سعودی عرب کے درمیان گہرے اور برادرانہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے اور سعودی پاکستان جوائنٹ بزنس کونسل کے فریم ورک کے تحت اقتصادی اور سرمایہ کاری کی شراکت کو بڑھانے کے لیے ان کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے تجارتی وفد اسلام آباد میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے قائم سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔
ملاقاتوں میں توانائی، اطلاعاتی ٹیکنالوجی، زراعت، مالیاتی خدمات، تعمیرات، سیمی کنڈکٹرز اور خوراک کی صنعت سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بات چیت کی جائے گی۔ گذشتہ برس اکتوبر میں بھی 135 رکنی سعودی کاروباری وفد نے پاکستان کو دورہ کیا تھا جس میں البیک سمیت دیگر منصوبوں پر دستخط کیے گئے تھے۔ یہ دورہ 17 ستمبر کو دستخط ہونے والے پاکستان۔ سعودی سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے کے بعد ہو رہا ہے، تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق وفد کا ایجنڈا خالصتاً اقتصادی نوعیت کا ہے۔ اسی تناظر میں دورے سے قبل وزیراعظم پاکستان نے بھی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ جبکہ دوسری جانب سعودی شوریٰ کا وفد بھی پیر کو اسلام آباد پہنچا ہے۔ عبداللہ بن محمد بن ابراہیم الشیخ قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کی دعوت پر یہ دورہ کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی و اقتصادی معاہدے کے تسلسل میں 18 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اعلامیے کے مطابق اس کمیٹی کا مقصد پاکستان، سعودی عرب اقتصادی فریم ورک کے تحت دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی مذاکرات کی قیادت کرنا ہے۔ کمیٹی کی مشترکہ صدارت وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر مصدق مسعود ملک اور سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے نیشنل کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد کریں گےکمیٹی اراکین رواں ماہ سعودی عرب کا دورہ بھی کریں گے جس میں معاہدے کے حوالے سے باہمی پیش رفت ہو گیگذشتہ برس اکتوبر میں پاکستان اور سعودی عرب نے صنعت، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی( آئی ٹی)، خوراک، تعلیم، کان کنی اور معدنیات، صحت، پیٹرولیم، توانائی اور باہمی تعاون کے دیگر شعبوں سمیت مختلف شعبوں میں 2.2 ارب ڈالر مالیت کی 27 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ ان تجارتی معاہدوں کے بعد دنیا میں تیل کی پیدوار کی سب سے بڑی سعودی کمپنی آرامکو نے پہلے ہی پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات میں نئے دور کی شروعات ہے۔ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے اسلام آباد میں پاکستان سعودی بزنس فورم کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس سے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم جو 5.12 ارب ڈالر تھا گذشتہ ایک برس میں وہ تقریباً 5.5 سے 6 ارب امریکی ڈالر سالانہ کے درمیان رہا۔ پاکستان کی حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ دو طرفہ اقتصادی تعلقات اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کی مشترکہ صدارت وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مصدق مسعود ملک اور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز احمد، نیشنل کوآرڈینیٹر برائے سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کریں گے۔ یہ ایک سول و عسکری ادارہ ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاری کی نگرانی کرتا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں میں پاکستان نے دوست ممالک، خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات مضبوط بنانے کے لیے کوششیں تیز کی ہیں سعودی عرب نے پاکستان کے لیے پانچ ارب ڈالر کے سرمایہ کاری پیکج کا وعدہ کر رکھا ہے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ’مشترکہ چیئرپرسنز سعودی ہم منصبوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے بنیادی/مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دیں گے۔ یہ ٹیمیں تفویض کردہ ذمہ داریوں پر تیز رفتاری سے عمل درآمد اور نفاذ کی ذمہ دار ہوں گی نوٹیفیکیشن کے مطابق تمام اراکین اور نمائندگان چھ اکتوبر سے دستیابی یقینی بنائیں اور وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ ایس آئی ایف سی اراکین کے سفری منظوری کے معاملات کو اسی دن ایک گھنٹے کے اندر مکمل کیا جائے۔ کمیٹی کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنی پیش رفت کی 15 روزہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے، جب کہ ایس آئی ایف سی سیکریٹریٹ انتظامی معاونت فراہم کرے گا۔ کمیٹی کے دیگر اراکین میں وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیر برائے توانائی اویس لغاری، وزیر برائے تجارت جام کمال خان، وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین، وزیر برائے مواصلات عبدالعلیم خان، وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان شامل ہیں۔اس کے علاوہ ریاض میں پاکستان کے سفیر احمد فاروق، ایس ای سی پی کے چیئرمین عاکف سعید اور سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ کمیٹی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان بھی شامل ہوں گے تاکہ جامع رابطہ کاری کو یقینی بنایا جا سکے۔کمیٹی اراکین رواں ماہ سعودی عرب کا دورہ کریں گے جس میں معاہدے کے حوالے سے باہمی پیش رفت ہو گیگذشتہ برس اکتوبر میں پاکستان اور سعودی عرب نے صنعت، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی( آئی ٹی)، خوراک، تعلیم، کان کنی اور معدنیات، صحت، پیٹرولیم، توانائی اور باہمی تعاون کے دیگر شعبوں سمیت مختلف شعبوں میں 2.2 ارب ڈالر مالیت کی 27 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے اسلام آباد میں پاکستان سعودی بزنس فورم کا انعقاد بھی کیا گیا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم 5.12 ارب ڈالر تھا جو گذشتہ ایک برس میں تقریباً 5.5 سے چھ ارب امریکی ڈالر سالانہ کے درمیان رہا۔ وزارت کامرس نے بتایا ’وفد میں معروف کاروباری شخصیات اور صنعت کار شامل ہیں۔ تجارتی وفد ایس آئی ایف سی حکام سے ملاقاتیں کرے گا ملاقاتوں کے دوران توانائی، اطلاعاتی ٹیکنالوجی، زراعت، مالیاتی خدمات، تعمیرات، سیمی کنڈکٹرز اور خوراک کی صنعت سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بات چیت کی جائے گی۔ اسلام آباد کے سعودی عرب سے تعلقات کے فوکل پرسن مصدق ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ حال ہی میں طے پانے والے دفاعی معاہدے کی نوعیت نیٹو طرز کے معاہدے جیسی ہے جو ’کمپری ہینسیئو سپیکٹرم‘ پر مبنی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب نے 18 ستمبر کو ریاض میں سٹریٹجک میوچل ڈیفنس ایگریمنٹ (ایس ایم ڈی اے) پر دستخط کیے تھے، جس کے ذریعے دونوں ممالک نے کئی دہائیوں پر محیط دفاعی تعلقات کو باضابطہ شکل دی اس معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ کسی ایک ملک پر جارحیت کو دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ جاری مشترکہ اعلامیے میں زور دیا گیا کہ اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع کو مضبوط بنانا ہےمصدق ملک نے خصوصی انٹرویو میں کہا ’میرا خیال ہے یہ ایک انتہائی جامع معاہدہ ہے جس میں ٹیکنالوجی کا تبادلہ، افواج کی تربیت، انٹیلی جنس کا تبادلہ، مشترکہ مشقوں کی تیاری اور یہ عہد شامل ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس معاہدے کے تحت پاکستان کی جوہری صلاحیت بھی سعودی عرب کو دستیاب ہو گئی؟ تو انہوں نے کہا کہ ایسا سوال کسی نے امریکہ اور فرانس سے ان کے برطانیہ اور پرتگال کے ساتھ ہونے والے اسی نوعیت کے معاہدوں پر نہیں اٹھایا یہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس پر لوگوں کو فکر کرنی چاہیے۔ دفاعی معاہدے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری سکیورٹی، ہماری مشترکہ سکیورٹی اور اجتماعی سکیورٹی مزید مضبوط ہو۔ اور ہم نے یہی کیا ہے جامع سپیکٹرم کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو مضبوط کریں گے اور اگر کوئی ہم میں سے کسی ایک پر حملہ کرے گا تو یہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا۔ وزیر مملکت نے بتایا کہ جو وفد وزیراعظم کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے وقت موجود تھا، اس میں وہ بھی شامل تھے۔ ان کے مطابق معاہدے پر جلد عملدرآمد شروع ہو جائے گا جس میں تکنیکی تعاون، سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مشترکہ مشقیں شامل ہیں۔یہ کہا جائے کہ سعودی عرب کی پاکستان کے ساتھ قربت کی ابتدا قیام پاکستان سے قبل شروع ہوئی تو غلط نہیں ہو گا 1940 میں قرارداد لاہور کی منظوری کے فوراً بعد اپریل میں اُس وقت کے ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز السعود نے کراچی کا دورہ کیا تھا، جن کا استقبال مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے گرم جوشی سے کیا تھا۔ وفد میں ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز کے پانچ بھائی بھی شامل تھے، جن میں سے دو شہزادہ فیصل اور شہزادہ فہد آگے چل کر سعودی عرب کے فرمانروا بھی بنے۔ 1943 میں مسلم اکثریت رکھنے والی ریاست بنگال شدید قحط سے دوچار ہوئی، اس وقت مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح نے ریلیف کیمپ لگایا تو شاہ عبدالعزیز السعود وہ پہلی غیرملکی شخصیت تھے، جنہوں نے اس سلسلے میں 10 ہزار پاؤنڈ کا عطیہ دیا۔ پاکستان سعودی عرب کو کتنی اہمیت دیتا ہے اس کا اندازہ قیام پاکستان کے دو ماہ بعد نومبر میں محمد علی جناح کی جانب سے اپنے خصوصی ایلچی ملک فیروز خان نون کو سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھجوائے جانے سے ظاہر ہوتی ہے۔ شاہ عبدالعزیز نے ان کا ذاتی طور پر استقبال کیا اور کراچی واپسی کے لیے اپنا شاہی طیارہ بھی پیش کیا۔ شاہ عبدالعزیز کے جانشینیوں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ 1954 میں کراچی میں سعودی عرب کے تعاون سے انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والوں کے لیے بنائی گئی کالونی سعود آباد کے افتتاح کے لیے روانہ ہونے سے قبل شاہ سعود نے پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کو ایک خط لکھا
اس خط میں ان کا کہنا تھا ہمیں پاکستان کے مضبوط ہونے پر خوشی ہو گی، پاکستان کی طاقت ہماری طاقت ہے اور اگر یہودیوں نے مقدس سرزمین پر حملہ کیا تو اس وقت پاکستان اس کا بچاؤ کرنے والوں میں سب سے آگے ہو گا جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے
1960 کے عشرے میں شاہ فیصل کی قیادت میں فوجی تعاون کے حوالے سے مضبوط بنیادیں رکھی گئیں۔ 1970 کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور فوجی تعاون کے لیے مزید اقدامات ہوئے۔ سعودی عرب نے 1971 کی جنگ میں پاکستان سفارتی اور فوجی لحاظ سے مدد کی۔ مشرقی پاکستان کھونے کے بعد 1974 میں لاہور میں او آئی سی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس عشرے کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کی ایک ارب ڈالر کے قریب مدد کی۔نومبر 1979 میں چند مسلح افراد نے خانہ خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد سعودی حکومت نے پاکستان اور فرانس سے مدد طلب کی۔ پاکستان سے ایس ایس جی کمانڈوز بھیجے گئے۔ دو ہفتوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد خانہ کعبہ کو حملہ آوروں سے چھڑایا لیا گیا تھا۔ 1980 کی دہائی میں سعودی عرب اور پاکستان نے افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا۔ اپنی یادداشت ’دی افغانستان فائل‘ میں شہزادہ ترکی الفیصل نے 1989 میں سوویت یونین کی شکست کے حوالے سے سعودی عرب اور پاکستان کی باہمی انٹیلی جنس کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ترکی الفیصل اس دوران اکثر پاکستان کا دورہ کرتے تھ دسمبر 1980 میں ولی عہد شہزادہ فہد نے اس بات کے اعلان کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا کہ ’پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت یا حملہ تصور کیا جائے گا۔ مئی 1998 میں جب پاکستان انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے کرنے پر مجبور ہوا تو اس وقت بھی سعودی عرب پاکستان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوا سعودی عرب نے اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی ہنگامی طور پر مالی مدد کی اور پاکستان کو موخر ادائیگیوں پر تیل فراہم کیا جب 2005 میں جموں اور کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا، تب بھی سعودی عرب وہ پہلا ملک تھا جس نے متاثرین کو مدد کی فراہمی کے لیے فضائی راہداری کے علاوہ دو جدید ترین فیلڈ ہسپتال بھی قائم کیے۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا باضابطہ آغاز 1967 میں دفاعی معاہدے پر دستخط سے ہوا تھا۔ اس معاہدے کا دائرہ کار سعودی عرب میں پاکستانی فوجی مشیروں اور ٹرینرز کی تعیناتی اور سعودی عرب کے فوجی افسران کو پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں میں تربیت کے مواقع فراہم کیے جانے پر مشتمل تھا
اسی طرح 1982 میں ہونے والے ایک دفاعی معاہدے نے باہمی تعاون کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی جس میں دفاعی مقاصد اور تربیت کے لیے سعودی عرب میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی اور دفاعی پیداوار کے علاوہ مشترکہ مشقوں کے نکات بھی شامل تھے۔ فوجی تعاون کا یہ سلسلہ گذشتہ کئی برسوں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح تک پھیل گیا اور پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف سرگرم 42 مسلمان ممالک پر مشتمل اتحاد کے کمانڈر کے طور پر 2017 سے خدمات سرانجام دیں۔ سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کو گذشتہ برس یوم پاکستان کے موقعے پر ہونے والی فوجی پریڈ کی تقریب میں مہمان خصوصی بنایا گیا۔ انہیں اس دن پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ’نشان پاکستان‘ بھی دیا گیا۔ خطے میں بدلتی سیاسی صورتِ حال جیسے کہ افغانستان کی صورت حال، ایران-سعودی تعلقات کی تبدیلیاں اور خلیجی امور کے پیشِ نظر باہمی مشاورت بڑھی۔ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی تعاون ایک طویل اور باہمی مفاد پر مبنی رشتہ ہے، جس نے خطے کی مختلف سیاسی اور سکیورٹی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھالا ہے۔ یہ تعاون مستقبل میں بھی جاری رہنے کے قوی امکانات ہیں، جس کی جانب اشارہ سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے اپنی ٹویٹ میں دیا۔ ان کا کہنا تھا: ’سعودیہ اور پاکستان۔۔ جارح کے مقابل ایک ہی صف میں۔۔ ہمیشہ اور ابد تک۔‘پاکستان اور سعودی عرب نے ایک تاریخی ’سٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘ پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت کسی ایک پر ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہو گا۔ اس معاہدے پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دستخط کیے۔ معاہدے میں دونوں ممالک نے اپنی سلامتی کو بڑھانے، خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور ’کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے معاہدے میں کہا گیا کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، بھائی چارہ اور اسلامی یکجہتی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون جاری ہے