LOADING

Type to search

پاکستان

اسلام آباد (اردو ٹائمز) فیض حمید کو سزا ،فوج میں کڑے احتساب کی روشن مثال

Share

اسلام آباد (اردو ٹائمز) فوج کےسابقہ افسر کو سزا پاک فوج میں کڑے احتساب کی روشن مثال ہے پاکستان کی دیگر عدالتوں کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہےپاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو 14 سال قید با مشقت قید کی سزا سنا دی گئی ہے.یاد رہے کہ کورٹ مارشل سے سزا ہونے کے بعد وفاقی حکومت یا آرمی چیف یا بریگیڈیئر رینک کا آفسر آرمی چیف کی اجازت سے مشروط یا غیر مشروط، پوری یا کچھ سزا معاف کر سکتا ہے مگر کوئی سزا جو حدود کے تحت دی گئی ہو، وہ نہ معاف ہو گی نہ ہی کم کی جا سکتی ہے۔آرمی کورٹ سے سنائی جانے والی سزا کے خلاف پہلے آرمی چیف کو اپیل کی جا سکتی ہے، اگر وہاں سے مسترد ہو جائے تو ملزم کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کا حق بھی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے اور برقرار رکھنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔


پاکستانی فوج نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو تحویل میں لینے اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔12 اگست کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت تادیبی کارروائی کا اعلان کیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی شکایات اور ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے تحت کارروائی کا ذکر کیا گیا تھا پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 80 کے مطابق کورٹ مارشل کی چار مختلف اقسام ہیں جن میں جنرل کورٹس مارشل، ڈسٹرکٹ کورٹس مارشل، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل اور سمری کورٹس مارشل شامل ہیں۔ وفاقی حکومت یا آرمی چیف کے حکم پر کسی آفسر کو فیلڈ کورٹ مارشل بلانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں کم از کم تین افسروں کا ہونا لازمی ہے۔ کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی آفسر کو 35 اقسام کے جرائم پر سزا ہو سکتی ہے۔ ان جرائم میں ملک دشمنوں سے تعلق رکھنا، جس ملک میں تعینات ہوں وہاں کے رہائشیوں یا جائیداد کے خلاف سرگرمیاں، کسی کے گھر یا جگہ پر لوٹ مار کی غرض سے چھاپہ مارنا اور دیگر کئی جرائم شامل ہیں۔ کورٹ مارشل میں سزاؤں سے متعلق پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60 میں تفصیلات درج ہیں۔
پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60 کے مطابق جرائم کے مرتکب افراد کو کورٹ مارشل کے ذریعے مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ کورٹ مارشل کے ذریعے سنگساری، سزائے موت، ہاتھ پاؤں کاٹنے اور عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق قید کی سزا 25 سال اور زیادہ سے زیادہ ایک سو کوڑے اور کورٹ مارشل کے ذریعے نوکری سے نکالنے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام الاؤنسز ضبط کیے جا سکتے ہیں۔فیض حمید پاکستانی فوج کے تیسرے لیفٹننٹ جنرل ہیں جن کا کورٹ مارشل ہوا ہے۔ اس سے قبل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو 30 مئی 2019 کو کورٹ مارشل کے ذریعے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، البتہ بعد میں یہ سزا معاف کر دی گئی اور 29 دسمبر 2023 کو انہیں رہا کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا بھی کورٹ مارشل ہو چکا ہے۔ 22 فروری 2019 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی پنشن اور دیگر کورٹ مارشل کے بعد ضبط کر دی گئی ہیں۔آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ سیکشن 40 مالی بدعنوانی اور فراڈ کے مرتکب فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے متعلق ہے۔ اگر کسی بھی فوجی افسر یا اہلکار پر اس طرح کے الزامات ہوں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہو سکتی ہےآرمی کورٹس میں ملزم کا ٹرائل اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آئینی عدالتوں میں ہوتا ہے۔ جنرل فیض کیونکہ افسر رہے ہیں اس لیے تین رکنی آرمی کورٹ کی سربراہی بھی بڑے رینک کے افسرنےکی,جنرل فیض حمید پر اختیارات سے تجاوز کا جو الزام ہے یا آئی ایس پی آر نے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی سے متعلق جو کہا، اس حوالے سے فوج میں مکمل نظام موجود ہے جس میں کورٹ مارشل کے ذریعے دونوں طرف کا موقف اور شواہد کی روشنی میں قانون کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں,جب کسی افسر کے خلاف کوئی شکایت آتی ہے تو پہلے اس کی انکوائری کی جاتی ہے پھر کورٹ مارشل کی سفارش ہوتی ہے۔ افسروں کے لیے کسی بڑے رینک کے افسر کی سربراہی میں تین رکنی ملٹری کورٹ تشکیل دے کر مقدمے کی سماعت ہوتی ہے۔ اس دوران ملزم کو بھی اپنے دفاع کا پورا حق دیا جاتا ہے جس میں وہ اپنی مرضی کا کوئی بھی وکیل دفاع بھی پیش کر سکتا ہے۔ تاہم الزامات اگر ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں ثابت ہو جائیں تو سزا کا تعین کیا جاتا ہے۔ آرمی کورٹس مین کیس جلد از جلد نمٹا دیے جاتے ہیں۔ ’ملٹری کورٹس میں سماعت آرمی کے اپنے دفاتر میں ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ آرمی کورٹ سے جرم ثابت ہونے پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا بلکہ اس سے متعلق رپورٹ جیک برانچ کو بھیج دی جاتی ہے۔ یہ فوج کا عدالتی معاملات کے لیے بنایا گیا اپنا شعبہ ہے۔ آرمی کورٹ سے ملنے والی رپورٹ کی روشنی میں جیک برانچ ملزم کی آرمی ایکٹ کی لاگو ہونے والی شقوں کے مطابق سزا تجویز کرتی ہے۔ پھر مجاز اتھارٹی کی منظوری سے سزا کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا کو جاری اعلامیے کے مطابق: ’ 12 اگست 2024 کو مسٹر فیض حمید، جو سابق لیفٹیننٹ جنرل تھے، انکے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا جو 15 ماہ پر محیط تھا۔ ’ملزم پر چار الزامات عائد کیے گئے، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کو نقصان پہنچانے والی تھی، اختیارات اور حکومتی وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو غلط نقصان پہنچانے سے متعلق تھے۔ ’طویل اور محنت طلب قانونی کارروائیوں کے بعد، ملزم کو تمام الزامات میں مجرم قرار دیا گیا اور عدالت نے اسے 14 سال سخت قید کی سزا سنائی، جو 11 دسمبر 2025 کو جاری کی گئی۔ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی دفعات کی پابندی کی۔ ملزم کو تمام قانونی حقوق دیے گئے، جن میں اس کی پسند کی دفاعی ٹیم کے حقوق بھی شامل تھے۔ مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔‘ فیض حمید، پاکستان فوج کی اعلیٰ افسر اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے ہیں۔ گذشتہ برس 10 دسمبر کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بیان میں بتایا تھا کہ ’12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرتے ہوئے تحویل میں لیا گیا جبکہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے اگلے مرحلے میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کردیا گیا ہے۔‘ بیان میں بتایا گیا کہ ’ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔اس کے علاوہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جا رہی ہے، ان پر تشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں نو مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں جبکہ پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت بھی شامل تفتیش ہے۔‘ معلومات کے مطابق فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا طریقہ کار تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس افسر کے رینک کی مناسبت سے ایک مجاز اتھارٹی سزا کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس عمل میں سب سے پہلے کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں ’سمری آف ایویڈنس‘ ریکارڈ کی جاتی ہے اور اگر ثبوت اور شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ یہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ افسر کو کیا سزا دی جائے گی۔ سزاؤں میں رینک واپس لینا، سہولیات وغیرہ کی واپسی کے علاوہ قید بامشقت اور موت کی سزا تک شامل ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق، جنرل فیض کے ساتھ تین مزید فوجی افسران بھی فوجی تحویل میں لیے گئے تھے۔ گرفتار افسران میں دو برگیڈیئرز: برگیڈیئر ریٹائرڈ غفار، برگیڈیئر ریٹائرڈ نعیم اور ایک کرنل عاصم بھی شامل ہیں۔ تینوں افسران پیغام رسانی کا کام کرتے تھے۔ تینوں افسران سیاسی جماعت اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کےدرمیان رابطہ کاری میں شامل تھے۔ دونوں ریٹائرڈ بریگیڈیئر صاحبان کا تعلق چکوال سے ہے اور یہ جنرل فیض کے خاص اور منظور نظر افسران تھے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی پیغام رسانی اور سہولت کاری میں بھی ملوث تھے۔ فوج میں کڑے احتسابی عمل پر ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس میں واضِح بیان دے چکے ہیں کہ ’فوج میں خود احتسابی ایک کڑا، سخت، شفاف اور خود کار عمل ہے جو ہر وقت جاری رہتا ہے۔ جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘یاد رہے کہ جنرل فیض حمید کا نام پہلی مرتبہ 2017 میں منظرعام پر آیا تھا، جب مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا تھااور اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر کئی دنوں تک دھرنا دیاتھا۔ الیکشن بل 2017 میں ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کے الفاظ میں تبدیلی کے معاملے پر ہونے والے ٹی ایل پی کے اس دھرنے کو ختم کروانے میں جنرل فیض حمید نے اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے وہ خبروں میں رہے تھے۔

وہ دوسری مرتبہ 2019 میں خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کے طور پر تعینات ہونے کے بعد 2021 میں کابل کے سرینا ہوٹل میں اس وقت خبروں کا مرکز بنے، جب چائے پیتے ہوئے ان کی تصویر نے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔
صوبہ پنجاب کے چکوال ضلع سے تعلق رکھنے والے لیفٹینیٹ جنرل فیض حمید، فوج میں 76 لانگ کورس سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے تھے۔ اکتوبر 2021 میں ان کی بطور کور کمانڈر پشاور تعیناتی ہوئی تھی ۔ اس کے دس ماہ بعد انہیں بہاولپور بحثیت کور کمانڈر بھیج دیا گیاتھا وہ لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے جبکہ اس سے قبل راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف سٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس (سی آئی) سیکشن کے طور بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
لیکن جب نومبر 2022 میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو آرمی چیف نامزد کیا گیا تو انہوں نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی ۔ آٹھ نومبر 2023 کو ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی ، جس میں انہوں نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔ درخواست میں یہ الزام لگایا گیا تھاکہ 12 مئی 2017 کو جنرل فیض کے کہنے پر آئی ایس آئی حکام نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے گھر اور دفتر پر چھاپے مارے اور سونا، ہیرے اور رقم سمیت دیگر قیمتی اشیا ضبط کیں۔سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت، پاکستان فوج نے فیض حمید کے خلاف کورٹ آف انکوائری کا انعقاد اپریل 2024 میں شروع کیاتھا۔ اگست 2024 میں ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرتے ہوئے انہیں تحویل میں لیا گیا۔ بعد میں انہیں باضابطہ طور پر چارج شیٹ کیا گیاتھا۔
ان پر لگنے والے الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نو مئی کے بدامنی کے واقعات میں بھی شاملِ تفتیش تھے۔
یاد رہے کہ فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا طریقہ کار تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس افسر کے رینک کی مناسبت سے مجاز اتھارٹی سزا کا فیصلہ کرتی ہے۔
اس عمل میں سب سے پہلے کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں ’سمری آف ایویڈنس‘ ریکارڈ کی جاتی ہے اور اگر ثبوت اور شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔
یہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ افسر کو کیا سزا دی جائے گی اور سزاؤں میں رینک واپس لینا، سہولیات وغیرہ کی واپسی کے علاوہ قید بامشقت اور موت کی سزا تک شامل ہیں۔
جمعرات (11 دسمبر2025) کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جنرل فیض حمید کو 14 سال قید با مشقت قید کی سزا سنانے کا اعلان کیا۔
ان پر چار الزامات عائد کیے گئے، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کو نقصان پہنچانے والی تھی، اختیارات اور حکومتی وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو غلط نقصان پہنچانے سے متعلق تھے۔
فیض آباد دھرنا ;جنرل فیض حمید کا نام 2017 میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا اور اس کے بعد سے آج تک وہ کسی نہ کسی حوالے سے خبروں کی زینت بنتے رہے۔ تحریک لبیک کے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر 20 دنوں سے جاری دھرنے کے خاتمے میں ان کا کردار اہم تھا۔ پانچ سے 26 نومبر 2017 تک جاری رہنے والا دھرنا مظاہرین کے مطالبات ماننے اور وزیر قانون کے استعفے کے بعد ختم ہوا۔ بعد میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا تھا انہوں نے کسی حکومتی شخصیت سے نہ مذاکرات کیے اور نہ معاہدہ بلکہ مذاکرات جنرل فیض سے ہوئے اور وہی ضامن بھی تھے۔ اس معاہدے کی وجہ سے ان پر کڑی تنقید ہوئی اور سپریم کورٹ نے فوج کو سیاست سے دور رہنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن سیاست کے علاوہ جنرل فیض حمید کی اپنے بنیادی پیشہ ور سپائی ماسٹر کے طور پر بڑی غلطی افغان طالبان کی اگست 2021 میں دوسری حکومت کے قیام کے بعد سامنے آئی۔ طالبان کی آمد کے تین ہفتے بعد ہی جنرل فیض حمید نے دورہ کابل کے دوران کافی کپ کے ساتھ ان کی تصویر وائرل ہوئی اور شدید تنقید کا سبب بنی۔ خود فوج کے اندر اسے پسند نہیں کیا گیا اور اس نے اس تاثر کی قدرے توثیق کی کہ پاکستان ہی طالبان کے سرپرست تھے۔ وہ طالبان کے قبضے کے بعد کابل کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ عہدے دار تھے۔حالانکہ ان سے قبل امریکی سی آئی اے کے سربراہ بھی کابل آئے لیکن انہیں نہ کسی نے آتے اور نہ ہی جاتے دیکھا تھا۔ سنہ 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان کی حکومت نے 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا تھا ۔ انہوں نے موجودہ فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کی جگہ یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ بطور ڈی آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دراصل آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ جنرل پاشا اور جنرل فیض ہی تحریک انصاف ’پراجیکٹ‘ کے مبینہ معمار تھے۔ مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے، قانون سازی کے لیے اسمبلی اجلاسوں میں اراکین کی حاضری پوری کروانے اور بجٹ منظور کروانے میں بھی ملوث رہے۔ پی ٹی آئی ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ 2017 اور 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی اور پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے بھی ان پر مداخلت کے الزامات عائد کیے تھے۔ تاہم فیض حمید نے شوکت صدیقی کے الزامات کی تردید کی تھی۔ فیض حمید پاک فوج کے ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل تھے جنہوں نے بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور جی او سی سولہویں انفنٹری ڈویژن پنوں عاقل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپریل 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ان کی ترقی ہوئی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید جون 2019 میں ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیے گئے تھے۔ وہ آئی ایس آئی کو چھوڑ کر کور کی کمان کا تجربہ حاصل کرنے پشاور گئے لیکن آرمی چیف نہ بنانے پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی الزام ہے کہ وہ سیاسی طور پر متحرک تھے۔ کہتے ہیں فیض حمید کو مقتدر حلقوں نے بظاہر عمران خان کو بنانے، سنوارنے کی ذمہ داری سونپی تھی لیکن وہ خود اس منصوبے کے قیدی ہو گئے۔
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں بالخصوص 2013 کے بعد جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا مختلف سیاسی معاملات میں سامنے آتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا دھرنا ہو، ٹی ایل پی کا فیض آباد دھرنا یا 2018کے عام انتخابات، تحریک انصاف کے دور حکومت میں سینیٹ انتخابات میں بھی سیاسی رہنماوں نے ان پر مداخلت کے الزامات عائد کیے۔ لیکن جب ٹاپ سٹی والا معاملہ منظر عام پر آیا تو میڈیا پر اس کی کافی گونج سنائی دی۔ نومبر 2023 میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی تھی جس میں سابق ڈجی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ معیز احمد خان کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو ’سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی ایما پر خفیہ ادارے کے حکام نے ٹاپ سٹی کے اسلام آباد واقع دفتر اور ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ چھاپے کے دوران آئی ایس آئی حکام نے ان کے گھر سے سونے، ہیرے، اور پیسوں سمیت متعدد قیمتی اشیا قبضے میں لی تھیں نیز آئی ایس آئی کے حکام نے ان سے چار کروڑ روپے بھی لیے
اسلام آباد ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد خان کے مطاق ’12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز احمد خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور ان کے اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔ اس درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین نے کی تھی۔عدالت نے جنرل فیض حمید کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی فوج نے اپریل 2024 میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف تحقیقات کے لیے میجر جنرل کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ اسی کمیٹی کی سفارش پر فیض حمید کو تحویل میں لینے اور کورٹ مارشل کا فیصلہ کیا گیا۔اس درخواست پر سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔ ٹاپ سٹی کے مالک کی جانب سے درخواست میں یہ موقف بھی اپنایا گیا تھا کہ فیض حمید کے حکم پر ان کے گھر چھاپے کے دوران ان کے اہل خانہ پر تشدد کیا گیا اور اغوا کیا گیا۔ 40 روزہ غیر قانونی حراست سے رہائی ملنے پر ان کے سسر فوت ہو گئے جبکہ فیض حمید نے 400 تولے زیورات اور بڑی نقدی رقم جو گھر سے اٹھائی گئی تھی، واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پر صلح کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔24 فروری 2023 کوامریکی فیڈرل رجسٹر کی ویب سائٹ پر ان تحفوں کی تفصیلات شائع کی گئی فہرست کے مطابق حیرت انگیز طور پر
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی کو 30 جولائی 2021 کو ایک قالین، ایک پشمینہ کا سکارف اور ایک پیتل کا گلدان دیا جن کی مالیت 715 ڈالر درج ہے۔ فیض حمید اس وقت پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔6 اکتوبر 2021 فوج میں اعلی سطحی تبادلے کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور مقرر کر دیا گیا ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔
دس ماہ کے مختصر عرصے میں ہی انہیں پشاور سے بہاولپور کور کمانڈر تعینات کر دیا گیا لیکن جب نومبر 2022 میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کو آرمی چیف نامزد کیا گیا تو آرمی چیف کی فہرست میں موجود پانچویں نمبر کے افسر فیض حمید نے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی۔

اس سے قبل وہ راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف سٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلیجنس (سی آئی) سیکشن بھی رہ چکے ہیں,
بعد ازاں جنرل فیض حمید کا دورہ کابل بھی سرخیوں میں رہا جس کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ دورہ غیر رسمی فریم ورک تشکیل دینے کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو 14 سال قید با مشقت قید کی سزا سنا دی گئی ہے. میڈیا کو جاری اعلامیے کے مطابق: ’ 12 اگست 2024 کو مسٹر فیض حمید، جو سابق لیفٹیننٹ جنرل تھے، انکے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا جو 15 ماہ پر محیط تھا۔ ’ملزم پر چار الزامات عائد کیے گئے، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کو نقصان پہنچانے والی تھی، اختیارات اور حکومتی وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو غلط نقصان پہنچانے سے متعلق تھے۔ ’طویل اور محنت طلب قانونی کارروائیوں کے بعد، ملزم کو تمام الزامات میں مجرم قرار دیا گیا اور عدالت نے اسے 14 سال سخت قید کی سزا سنائی، جو 11 دسمبر 2025 کو جاری کی گئی۔ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی دفعات کی پابندی کی۔ ملزم کو تمام قانونی حقوق دیے گئے، جن میں اس کی پسند کی دفاعی ٹیم کے حقوق بھی شامل تھے۔ مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔‘ فیض حمید، پاکستان فوج کی اعلیٰ افسر اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے ہیں۔ گذشتہ برس 10 دسمبر کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بیان میں بتایا تھا کہ ’12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرتے ہوئے تحویل میں لیا گیا جبکہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے اگلے مرحلے میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کردیا گیا ہے۔‘ بیان میں بتایا گیا کہ ’ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔اس کے علاوہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جا رہی ہے، ان پر تشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں نو مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں جبکہ پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت بھی شامل تفتیش ہے۔‘ معلومات کے مطابق فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا طریقہ کار تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اس افسر کے رینک کی مناسبت سے ایک مجاز اتھارٹی سزا کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس عمل میں سب سے پہلے کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں ’سمری آف ایویڈنس‘ ریکارڈ کی جاتی ہے اور اگر ثبوت اور شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ یہ جرم کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ افسر کو کیا سزا دی جائے گی۔ سزاؤں میں رینک واپس لینا، سہولیات وغیرہ کی واپسی کے علاوہ قید بامشقت اور موت کی سزا تک شامل ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق، جنرل فیض کے ساتھ تین مزید فوجی افسران بھی فوجی تحویل میں لیے گئے تھے۔ گرفتار افسران میں دو برگیڈیئرز: برگیڈیئر ریٹائرڈ غفار، برگیڈیئر ریٹائرڈ نعیم اور ایک کرنل عاصم بھی شامل ہیں۔ تینوں افسران پیغام رسانی کا کام کرتے تھے۔ تینوں افسران سیاسی جماعت اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) .فیض حمید کو سزا ،فوج میں کڑے احتساب کی روشن مثال۔۔۔۔۔(اصغرعلی مبارک) فوج سابقہ افسر کو سزا پاک فوج میں کڑے احتساب کی روشن مثال ہے پاکستان کی دیگر عدالتوں کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے فیض حمید کےدرمیان رابطہ کاری میں شامل تھے۔ دونوں ریٹائرڈ بریگیڈیئر صاحبان کا تعلق چکوال سے ہے اور یہ جنرل فیض کے خاص اور منظور نظر افسران تھے جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی پیغام رسانی اور سہولت کاری میں بھی ملوث تھے۔ فوج میں کڑے احتسابی عمل پر ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس میں واضِح بیان دے چکے ہیں کہ ’فوج میں خود احتسابی ایک کڑا، سخت، شفاف اور خود کار عمل ہے جو ہر وقت جاری رہتا ہے۔ جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X