اسلام آباد (اردو ٹائمز) مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرپاکستان کااظہارِ تشویش
Share
اسلام آباد (اردو ٹائمز) پاکستان دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کی رپورٹ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں منظم انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا، جو رواں سال اپریل میں پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سامنے آئیں، جس کا الزام بھارت نے بغیر کسی ثبوت کےپاکستان پر عائد کیا تھا۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ’پاکستان اقوام متحدہ کے اسپیشل پروسیجرز کے ماہرین کی جانب سے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے حوالے سے حالیہ نتائج پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے جو بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر میں کیے جا رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ رپورٹ ایک بار پھر بھارتی قبضے کے تحت کشمیری عوام کو درپیش شدید اور منظم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتی ہے۔
اس میں اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے ان مشاہدات پر بھی شدید پریشانی کا اظہار کیا گیا کہ بھارت کے اقدامات کے نتیجے میں تقریباً 2800 افراد، جن میں صحافی، طلبہ اور انسانی حقوق کے علمبردار شامل ہیں، کو حراست میں رکھا گیا ہے۔مزید کہا گیا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) جیسے سخت قوانین کے مسلسل نفاذ نے غیر معینہ اور غیر منطقی حراستوں کی راہ ہموار کی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ تشدد، حراستی اموات، قیدیوں سے رابطے کا منقطع رہنا، قانونی کارروائی سے محروم رکھنا، اہلِ خانہ سے رابطہ نہ ہونے دینا، گھروں کو سزا کے طور پر مسمار کرنا، جبری بے دخلی، بار بار ہونے والے مواصلاتی بلیک آؤٹس، اور صحافتی آزادی کی سخت پابندیاں، جن میں 8 ہزار سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی بندش بھی شامل ہے، نیز نفرت انگیز تقریروں، ہجومی تشدد اور بھارت بھر میں کشمیریوں اور مسلم برادریوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ انتہائی قابلِ مذمت اور باعثِ تشویش ہیں۔ ’یہ نتائج اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کشمیری مسلمانوں پر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و جبر کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ تحفظات درست تھے اور بھارت بھر میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک جاری ہے‘ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے جابرانہ اقدامات بند کرے اور مقبوضہ کشمیر میں تمام من مانے طور پر گرفتار شدہ افراد کو غیر مشروط طور پر رہا کرے۔
اس کے علاوہ بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ تمام مذہبی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور مسیحیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ مزید کہا گیا کہ پاکستان کشمیر کے تنازع کے پرامن، منصفانہ اور دیرپا حل کے عزم کا اعادہ کرتا ہے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔دفتر خارجہ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنی جابرانہ پالیسیاں ترک کرے، آبادیاتی اور قانونی تبدیلیوں کو واپس لے، بنیادی آزادیوں کی بحالی کرے اور بامعنی مذاکرات میں سنجیدگی سے شامل ہو۔ مزید کہا گیا کہ پاکستان کشمیری عوام کی غیر ملکی قبضے کے خلاف منصفانہ جدوجہد میں اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ پہلگام حملے کے بعد بھارتی فورسز نے 2 ہزار سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا اور بڑے پیمانے پر گھروں کو مسمار کیا۔ متعدد زیرِ حراست افراد کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان سے رابطہ منقطع کر دیا گیا اور انہیں وکلا اور خاندان کے افراد تک رسائی نہیں دی گئی۔ یہ اقدامات اظہارِ رائے، اجتماع اور پُرامن احتجاج کی آزادی پر غیر متناسب پابندیاں ہیں۔خیال رہے 5 اگست 2019 ءَ بھارت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی جاچکی ہے ہمارے کشمیری بہن بھائی ایک وحشیانہ فوجی قبضے میں زندگی گزار رہے ہیں، ایک ایسا فوجی قبضہ جس کی موجودہ دور میں بہت کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ یادرہے کہ کشمیریوں کا جذبۂ حریت آج بھی توانا ہے۔ کشمیریوں میں یہ جذبہ ان کے اجداد کی دین ہے جنہوں نے ڈوگرا راج کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ گزشتہ 7 دہائیوں سے کشمیریوں کو ان کے حقِ خودارادیت سے محروم رکھا گیا لیکن اس کے باوجود بھی کشمیری اپنے حق کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی طرح کے مظالم اور جبر انہیں اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹا سکے۔پاکستان کے عوام کے دل اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان نے کشمیریوں کی امنگوں اور اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کی حمایت کی ہے۔ عالمی سیاست کے اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان یہ حمایت اس وقت تک برقرار رکھے گا جب تک کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت اور ان کی آزادی نہیں دی جاتی۔
حکومتِ پاکستان مستقل بنیادوں پر مسئلہ کشمیر اور بھارت کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو دنیا کے سامنے لارہی ہے۔ کئی دہائیوں میں کئی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بات چیت ہوئی۔ دنیا بھر سے کئی قائدین نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کی پاکستان نے 5 اگست 2019ء کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے جارحانہ اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہےمقبوضہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال اور قابض بھارتی افواج کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات اس بات کا اظہار ہیں کہ کشمیری شناخت کو مٹانے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ صدیوں پرانے ڈومیسائل لا میں تبدیلی کے ذریعے آبادیاتی تقسیم میں جبری تبدیلی اسی عمل کا حصہ ہے۔ جہاں جہاں بھی یہ قدم اٹھایا گیا ہے وہاں مقامی آبادی میں قابض قوت کے عزائم اور اقدامات کے خلاف تلخی میں اضافہ ہوا ہے۔کشمیری قابض قوت کی جانب سے آبادی کو تبدیل کرنے کے عزائم سے لاعلم نہیں, بھارت نے پہلی مرتبہ اس حکمتِ عملی کا استعمال تقسیمِ برِصغیر کے وقت کیا تھا۔ نومبر 1947ء میں مہاراجہ کی ڈوگرا افواج اور آر ایس ایس کے نظریات کے حامل بلوائیوں نے جموں میں تقریباً 3 لاکھ کشمیری مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا اس نسل کشی اور قتلِ عام کا نتیجہ جموں کے تقریباً 10 لاکھ مسلمانوں کی جبری بے دخلی کی صورت میں نکلاتھااس نسل کشی کو ریاست کی حمایت حاصل تھی اور یہ جموں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش تھی۔ جموں میں مسلمان آبادی کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ تھا اور یوں انہیں وہاں اکثریت حاصل تھی، لیکن اس قتلِ عام اور جبری بے دخلی کے نتیجے میں جموں میں مسلمان آبادی اقلیت بن گئی اور آبادی کے تناسب میں ہونے والی یہ مصنوعی تبدیلی آج تک برقرار ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر کے عوام ویسے ہی کسی سانحے کے دوبارہ رونما ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں۔آبادی کی تقسیم میں تبدیلی کے علاوہ بھارتی حکومت نے اردو زبان کو بھی ختم کرنے کے حوالے سے ایک قانون منظور کیا جبکہ اردو زبان 135 سال سے اس خطے کی سرکاری زبان ہے۔ عوامی مقامات کے مسلم نام بھی تبدیل کیے ہیں اور جبری حلقہ بندیوں کے ذریعے کشمیریوں کی نمائندگی کو بھی مصنوعی طور پر کم کیا جارہا ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد کشمیریوں کو ان کی شناخت سے محروم کرنا ہے۔یہ تمام اقدامات اسی صورت میں ممکن ہوئے جب بھارت نے کشمیری عوام کی امنگوں کے برخلاف اور یکطرفہ و غیر قانونی طور پر آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کردیا۔ اگرچہ پاکستان نے کبھی بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کے کسی آرٹیکل کا نفاذ تسلیم نہیں کیا تاہم آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کا نتیجہ زمینی حالات میں مادی تبدیلی کی صورت میں نکلا ہے جو کہ دو طرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ان سخت اقدامات کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت کو روکنے کے لیے بھارتی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر کو ایک ایسی جیل میں تبدیل کردیا ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج کشمیر میں ہر 8 کشمیریوں کے لیے ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ رواں سال اپریل میں پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ہزاروں سیاسی قائدین، اساتذہ، سماجی کارکن، صحافی اور طلبہ جھوٹے مقدمات اور کالے قوانین کے تحت بھارت بھر کی جیلوں میں قید ہیں۔ کئی حریت رہنماؤں کی حالت تشویشناک ہے اور ان کے گھر والے ان کے تحفظ کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت کی ہندوتوا نظریات کی حامل سیاسی پالیسیاں اور اقدامات نہ صرف کشمیریوں کی سیاسی شناخت اور تاریخ کے لیے خطرہ ہیں بلکہ یہ خطے کے امن اور آزادی و انتخاب کی اقدار پر قائم عالمی نظام کے لیے بھی خطرے کا باعث ہیں۔ بی جے پی کی حکومت میں بھارت بہت حد تک تبدیل ہوچکا ہے اور بالادستی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارت طاقت کے استعمال اور فوجی مہم جوئی کے ذریعے اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنم لینے والے انسانی المیے سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت ایک جانب پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کررہا ہے تو دوسری جانب اس نے پروپیگنڈے کے تحت عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ ان تمام باتوں کا ذکر بھارت کی سرپرستی میں پھیلائی جانے والی غلط معلومات اور دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کے تیار کردہ ڈوزیئر میں موجود ہے۔بین
الاقوامی شہرت یافتہ یورپی یونین ڈس انفو لیب نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے جعلی این جی اوز اور جعلی نیوز ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے نظام اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کی بھارتی کوششوں کا انکشاف کیا ہے یہ صورتحال پاکستان اور خطے کے حوالے سے کچھ اہم سوالات کو جنم دیتی ہے یہ سوال یہ ہےکہ کیا موجودہ بھارتی حکومت ایک معقول حکومت ہے یا پھر نظریاتی شدت پسندی کی حامل ایک ناقابلِ بھروسہ حکومت ہے۔ کشمیر میں ہونے والی جدوجہد حقیقی کشمیریوں کی جدوجہد ہے اور اسے بھارتی قابض افواج کے خلاف ہمیشہ عوامی حمایت حاصل رہے گی حالیہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد عسکری عزائم رکھنے والا بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی رہی سہی حمایت بھی گنوا چکا ہے۔ کشمیریوں نے ناانصافی اور ریاستی بربریت کے سامنے ہمیشہ بہادری، مضبوطی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ عالمی برادری نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے انہیں ان کے سیاسی حقوق کی یقین دہانی کروائی ہے اور کشمیری اس وقت بھارتی قبضے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک انہیں ان کے سیاسی حقوق حاصل نہیں ہوجاتے۔پاکستان کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے گا۔ پاکستان اقوامِ عالم سے مطالبہ کرتاہے کہ سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے حقِ خودارادیت دلوائیں۔ مسئلہ کشمیر عالمی ضمیر کے سامنے ایک ادھورے وعدے کی حیثیت سے موجود ہے۔ انشا اللہ وہ دن دُور نہیں جب کشمیری بھارتی جبر و استبداد سے آزاد ہوجائیں گے،5 اگست 2019ء کے بعد سے کشمیر عملی طور ایک پولیس اسٹیٹ بن چکی ہے۔ زباں بندی کا جو دستور اس دن قائم ہوا تھا، وہ پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ حکومتی اقدامات کے خلاف بات کرنا جرم ہے اور جو بات کرنے کی جرأت کرے، وہ حوالات پہنچ جاتا ہے۔بھارت کی حکومت مانتی ہے کہ 5 اگست کے بعد کچھ 15 ہزار سے زیادہ لوگوں کو زینت زنداں بنایا گیا جن میں ابھی بھی چند ہزار پابند سلاسل ہی ہیں۔ جو رہا ہوئے ان سے ضمانتی بانڈ لیا گیا کہ وہ بات نہیں کریں گے بلکہ اندھوں، بہروں اور گونگوں کی طرح زندگی گزاریں گے۔ دیکھ کر بھی اَن دیکھی، سن کر بھی اَن سنی کریں گے اور بات کرنے کا موقع آئے تو گونگے بنیں گے۔ اس دوران مغربی اور یورپی ممالک کے سفیروں کو بھی کشمیر لایا گیا تاکہ انہیں یہ دکھایا جاسکے کہ کشمیر پُرسکون ہے لیکن یہ خاموشی کوئی فطری خاموشی نہیں تھی بلکہ جبری خاموشی تھی اور عملی طور کشمیر کو ایک ایسے قبرستان میں تبدیل کردیا گیا ہے جو چلتی پھرتی زندہ لاشوں کا مسکن بن چکا ہے۔5 اگست 2019ء کو خصوصی حیثیت کی تنسیخ اور ریاست کو 2 لخت کرنے کے ساتھ ہی کشمیر کی صحافت بھی شکار ہوئی۔ پہلے ٹیلی فون اور موبائل فون بند کردیے گئے اور ساتھ ہی انٹرنیٹ نیٹ ورک کا دم گھونٹ دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اخبارات خبر کو ترسنے لگے۔ اس پر سنسرشپ کی یہ انتہا تھی کہ مقامی اخبارات اپنے گرد ونواح کی خبروں سے انجان بن گئے۔ بس پھر وہی رپورٹ ہونے لگا جو ارباب بست و کشاد چاہتے تھے۔عالمی میڈیا نے کمال حصہ زمینی حقائق کی رپورٹنگ کی لیکن وہ کام بھی اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ نہ ٹیلی فون تھا اور نہ خبروں و تصاویر کی ترسیل کے لیے انٹرنیٹ ہے۔دفعہ 370 اور دفعہ 35 ’اے‘ کے طفیل جموں وکشمیر میں صرف یہاں کے پشتینی باشندوں کو ہی املاک خریدنے اور سرکاری نوکری کرنے کا حق میسر تھا لیکن جب پشتینی باشندگی قوانین کی جگہ نیا اقامتی قانون یا ڈومیسائل قانون لایا گیا تو کشمیر کی مقامی سرکاری نوکریوں کو پورے بھارت کے لیے کھول دیاگیا لیکن جب اس پر احتجاج ہوا تو ذرا سی ترمیم کرکے اقامہ کے حصول کے لیے جموں میں 10 سالہ قیام لازمی قرار دیا گیا۔غور طلب بات یہ ہے کہ 2011ء کی مردم شماری میں جموں وکشمیر میں 25 لاکھ بیرونی مزدور تھے جبکہ 7 لاکھ فورسز اہلکار بھی یہاں تعینات تھے۔ اس کے علاوہ بھارت سرکار کے ہزاروں ملازمین بھی برسہا برس سے یہاں تعینات ہیں۔ نیز مغربی پاکستان سے آئے ہوئے 6 لاکھ سے زیادہ ہندو پناہ گزیں بھی یہاں مقیم ہیں۔یوں جموں وکشمیر کی آبادی میں یکایک لاکھوں کا اضافہ ہوگا جس کو مقامی آبادی بجا طور آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے تناظر میں دیکھ رہی ہے اور مسلم اکثریتی طبقے کو خدشہ ہے کہ اصل منصوبہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔اس سے قبل جموں وکشمیر میں ایک دفعہ ایسا ہوچکا ہے۔ 1947ء میں تقسیم برِصغیر کے وقت جموں میں 4 لاکھ مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا اور اس مرتبہ عوامی حلقے مانتے ہیں کہ اگر قتلِ عام ممکن ہے تو چور دروازے سے لوگ یہاں بسائے جائیں گے اور ایک وقت آئے گا جب ہندو تعداد میں زیادہ ہوں گے اور مقامی مسلمان اقلیت میں ہوجائیں گے۔اب تو فوج کو بھی اسٹریٹجک یا تذویراتی علاقوں کی نشاندہی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور ایک دفعہ فوج کسی علاقے کو اسٹریٹجک ایریا قرار دے دے تو وہاں اس کو کسی قسم کی بھی تعمیراتی سرگرمی انجام دینے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ 5 اگست سے قبل یہاں معمولی سی تعمیر کے لیے بھی فوج کو حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت تھی اور فوج زمین خریدنے کی اہل نہ تھی بلکہ صرف سرکاری زمین پٹے پر لینے اور نجی اراضی کرائے پر لینے کا اختیار رکھتی تھی لیکن اب یہ بندش نہیں رہی۔اب فوج جہاں چاہے زمین لے سکتی ہے اور اس کے لیے اس علاقے کو محض اسٹریٹجک علاقہ قرار دینا ہے جس کے بعد وہاں فوجیوں کے لیے فیملی کوارٹرز بھی تعمیر ہوں گے۔ مقامی آبادی کو خدشہ ہے کہ دراصل اب جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں بنیں گی جہاں فوج کی فیملی کالونیاں بنیں گی اور کل یہ فیملی کالونی والے بھی اقامہ کے دعویٰ گزار ہوں گے۔کشمیر کی بنیاد اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہیں اور ان قراردادوں میں واضح لکھا گیا ہے کہ منقسم کشمیر کے مقامی باشندے ہی رائے شماری میں حصہ لے کر اپنی قسمت کا فیصلہ کریں گے لیکن دہلی نے مقامی باشندگی کا تصور ہی ختم کردیا۔اب اقامتی قانون ہے۔ آنے والے برسوں میں آبادیاتی تناسب یکسر تبدیل ہوجائے گا۔ پھر اگر خدانخواستہ کبھی اقوامِ متحدہ قراردادوں پر عملدرآمد کا وقت آیا بھی تو اس وقت کون یہ پہچان کرے گا کہ مقامی کون ہے اور غیر مقامی کون کیونکہ سب خلط ملط ہوچکا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری 5 اگست کی کارروائی کو پاکستان کی اسٹیٹ پالیسی پر بھی حملہ سمجھ رہے تھے لیکن پاکستان کی خاموشی کو اب ایک طرح سے مودی سرکار کی کارروائی کی قبولیت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔5 اگست 2019ء کی کارروائی کا ڈراپ سین کیا ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن آثار وقرائن بتارہے ہیں کہ وقت کے بطن میں کچھ اچھا نہیں پل رہا ہے اور جب اس کا ظہور ہوگا تو بھارت اپنے آپ کو داخلی اور خارجی سطح پر ایک ایسے گرداب میں پائے گا جس سے خلاصی اگرچہ ناممکن نہیں لیکن انتہائی کٹھن ضرور ہوگی۔

