LOADING

Type to search

پاکستان

خانیوال (اردو ٹائمز) سید عابد امام خاندانی وقار اور روایات کا امین

Share

خانیوال (اردو ٹائمز) خانیوال  کی نرم ہوا میں جب فصلوں کی خوشبو گھلتی ہے تو لگتا ہے کہ اس مٹی نے ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کیے جو سیاست کو خدمت اور خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔ انہی روایتوں میں سے ایک نام ہے — سید عابد امام۔
ایک ایسا نوجوان جو بظاہر نرم گفتار اور متین مزاج ہے، مگر اندر سے سیاست، کردار اور خاندانی وقار کے گہرے رنگوں سے لبریز ہے۔
ان کا تعلق اس زمین سے ہے جو جنوبی پنجاب کے لیے ہمیشہ ایک سیاسی درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن کہانی صرف خانیوال تک محدود نہیں۔
ان کے خاندان کی جڑیں جھنگ کی مٹی میں بھی اتنی ہی مضبوطی سے پیوست ہیں جتنی خانیوال کے کھیتوں میں۔
یہی وہ امتزاج ہے جو سید عابد امام کو منفرد بناتا ہے — ایک ایسا وارث جو دو عظیم خانوادوں کی روایت اور جدت کے درمیان ایک مضبوط پل بننے جا رہا ہے۔

سید عابد امام کے والد سید فخر امام پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہیں جنہیں شرافت، علم اور وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جو اقتدار کے لیے نہیں، اقدار کے لیے جانے جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر بننے کے بعد انہوں نے ایوان کے احترام کو جس طرح بحال کیا، وہ ان کے سیاسی فہم اور شخصی وقار کی گواہی دیتا ہے۔
فخر امام کا تعلق خانیوال کے ان زمیندار گھرانوں سے ہے جنہوں نے ہمیشہ زمین کو محض روزی کا ذریعہ نہیں بلکہ ذمہ داری کا نشان سمجھا۔
یہی احساسِ ذمہ داری ان کے بیٹے عابد امام کے خمیر میں بھی شامل ہے۔

اگر فخر امام نے سیاست میں شائستگی، برداشت اور سچائی کو زندہ رکھا تو ان کی اہلیہ سیدہ عابدہ حسین نے جرأت، خود اعتمادی اور روشن خیالی کی مثال قائم کی۔
وہ صرف جھنگ کی سیاست کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔
وہ ملک کی پہلی خاتون رکنِ قومی اسمبلی بنیں اور بعد ازاں امریکا میں پاکستان کی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
ان کی گفتگو میں جہاں جھنگ کے سادات کی نرمی محسوس ہوتی ہے، وہیں مغربی دنیا کے تجربے کی گہرائی بھی جھلکتی ہے۔
ان کا لباس، ان کی زبان، ان کی گفتگو — سب اس بات کا اظہار ہیں کہ ایک عورت کس طرح روایت اور جدیدیت کو ایک ساتھ نبھا سکتی ہے۔
یہی توازن آج سید عابد امام کے مزاج میں بھی دکھائی دیتا ہے۔

سیدہ عابدہ حسین کا خاندانی پس منظر جھنگ کے اس تاریخی علاقے سے جڑا ہے جو صدیوں سے روحانیت، علم اور سیاست کا گہوارہ رہا ہے۔
ان کے نانا سید امیر علی شاہ جھنگ اور ملتان کے مشہور روحانی و سماجی رہنما تھے۔
برطانوی دور میں بھی ان کا خاندان عزت و احترام کے ساتھ پہچانا جاتا تھا۔
سید امیر علی شاہ نے اپنے علاقے میں تعلیم کے فروغ، زمینداری کے جدید طریقوں اور سماجی فلاح کے کئی منصوبے شروع کیے۔
وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سیاست کو خدمت کے لیے استعمال کیا، اور یہی فلسفہ بعد میں ان کی نواسی کے ذریعے پاکستان کی قومی سیاست تک پہنچا۔
سیدہ عابدہ حسین کی شخصیت دراصل اسی روحانی وراثت اور روشن سیاسی فکر کا حسین امتزاج ہے۔
ان کے نانا کی وہ وسعتِ نظر آج بھی ان کے خاندان کے ہر فرد میں سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔

اسی خاندانی پس منظر میں ایک اور تاریخی باب شامل ہے — وہ تعلق جو اس خاندان کا سر سکندر حیات خان کھٹڑ سے تھا۔
سر سکندر حیات خان متحدہ پنجاب کے وزیرِاعظم رہے، ایک قد آور سیاسی شخصیت جنہوں نے برطانوی راج کے دور میں پنجاب کو متحد رکھنے کے لیے کشادہ سیاست کا راستہ اختیار کیا۔
سید امیر علی شاہ کے خاندان اور سر سکندر حیات خان کے درمیان خاندانی اور فکری قربت موجود تھی۔
دونوں خاندانوں میں احترام، باہمی اعتماد اور پنجاب کی تہذیبی روایات پر مبنی رشتہ نسلوں تک قائم رہا۔
سیدہ عابدہ حسین نے ہمیشہ اس تعلق کو نبھایا اور اسے اپنی روایت کا حصہ سمجھا۔
گزشتہ برس وہ اسلام آباد میں سردار سکندر حیات خان جونیئر کے چہلم میں شریک ہوئیں۔
ان کی موجودگی وہاں محض ایک سماجی رسم نہیں تھی بلکہ اس اخلاقی روایت کا تسلسل تھی جس میں تعلق نبھانے کو انسانیت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔
شاید یہی وہ وصف ہے جو سیاست کو انسانی بناتا ہے، جو رشتوں کو اقتدار سے اوپر لے جاتا ہے۔

یہی روایت سید عابد امام نے بھی ورثے میں پائی۔
وہ اپنے والدین کے سیاسی فلسفے اور طرزِ زندگی دونوں سے متاثر ہیں۔
ان کا مزاج نرم، بات میں دلیل، اور لہجے میں شائستگی ہے۔
آج کے شور شرابے والے سیاسی ماحول میں ان کا سکوت اور تحمل ایک تازہ ہوا کی مانند محسوس ہوتا ہے۔
وہ اپنے والد کی طرح احترام پر یقین رکھتے ہیں، اور اپنی والدہ کی طرح عوامی خدمت کو سیاست کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ سیاست میں وقتی مقبولیت نہیں بلکہ مستقل اعتماد اہم ہے — اور یہ اعتماد صرف خدمت سے پیدا ہوتا ہے، نعرے سے نہیں۔

خانیوال اور جھنگ کے درمیان چلنے والی سڑک پر اگر کوئی شخص سید فخر امام کے گاؤں سے نکل کر جھنگ کی طرف سفر کرے تو راستے میں زمین کی خوشبو بدلتی جاتی ہے مگر روایت ایک ہی رہتی ہے — خدمت، شرافت اور وفا۔
یہی روایت اب سید عابد امام کے کندھوں پر منتقل ہو چکی ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ ان کے خاندان کے نام کے ساتھ ایک تاریخ جڑی ہے، اور اس تاریخ کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے۔
وہ اکثر کہتے ہیں کہ “ہم نے سیاست کو کمائی نہیں، خدمت کا راستہ بنایا ہے۔”
یہ جملہ ان کے کردار کی جھلک ہے، ان کے خمیر کی پہچان۔

سید عابد امام کا طرزِ سیاست آج کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے۔
وہ شور نہیں مچاتے، کام دکھاتے ہیں۔
ان کی سوچ میں تلخی نہیں، اعتدال ہے۔
وہ اس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو سیاست میں اخلاق کی واپسی چاہتی ہے۔
ان کا یقین ہے کہ ملک کے مسائل نعروں سے نہیں، سنجیدہ گفتگو اور عمل سے حل ہوں گے۔
شاید یہی وہ سوچ ہے جو ان کے والد فخر امام کے دل کے قریب تھی،
اور یہی اصول ان کے نانا سید امیر علی شاہ کے کردار میں نمایاں نظر آتا تھا۔

اس خاندان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی تعلقات کو مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا۔
انہوں نے دوستیوں کو بھی عزت کے ساتھ نبھایا اور اختلافات کو بھی وقار کے ساتھ۔
سیدہ عابدہ حسین جب کسی تقریب میں شریک ہوتی ہیں تو ان کے ساتھ ایک تاریخ چلتی ہے۔
ان کے لباس سے لے کر ان کے لہجے تک ایک تہذیب جھلکتی ہے — وہ تہذیب جو آج کے شور زدہ سیاسی ماحول میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔
ان کے بیٹے عابد امام اسی تہذیب کے وارث ہیں۔
ان کی سیاست میں صبر ہے، ان کے انداز میں شائستگی، اور ان کی سوچ میں وسعت۔
وہ اس نسل کے نمائندہ ہیں جو والدین کی میراث کو نئے زمانے کی زبان میں آگے بڑھا رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سیاست میں سب کچھ وقتی ہوتا ہے، مگر کچھ خاندان ایسے ہوتے ہیں جو وقت سے ماورا ہو جاتے ہیں۔
ان کے کردار، ان کی قربانیاں، ان کی روایات تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔
سید فخر امام، سیدہ عابدہ حسین، سید امیر علی شاہ، اور اب سید عابد امام — یہ سب اسی تسلسل کے کردار ہیں۔
خانیوال کی زمین نے انہیں شائستگی دی، جھنگ کی دھرتی نے روحانیت دی، اور وقت نے انہیں ذمہ داری کا احساس دیا۔
اب یہ ذمہ داری سید عابد امام کے کندھوں پر ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ وراثت بھاری ہے مگر وہ اسے اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست کو آج ایسے ہی کرداروں کی ضرورت ہے —
جو بولنے سے پہلے سوچیں، اور سوچنے سے پہلے سنیں۔
جو اختلاف کو دشمنی نہ سمجھیں، اور اتفاق کو خوشامد نہ بنائیں۔
سید عابد امام ان چند نوجوان سیاست دانوں میں سے ہیں جن کی گفتگو میں احترام، عمل میں مستقل مزاجی اور رویے میں وقار نمایاں ہے۔
ان کے والدین نے جو چراغ جلایا تھا، وہ اسے روشن رکھنے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے روشنی پھیلانا چاہتے ہیں۔

وقت بدل گیا ہے، سیاست کے انداز بھی بدل گئے ہیں، مگر کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو زمانے کے شور میں بھی اپنی پہچان قائم رکھتے ہیں۔
سید عابد امام انہی میں سے ہیں — روایت کے وارث، جدت کے نمائندہ اور سیاست میں وقار کے علمبردار۔
ان کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ جب خلوص، علم اور خدمت ساتھ ہوں تو سیاست عبادت بن جاتی ہے۔
اور شاید یہی وہ پیغام ہے جو خانیوال اور جھنگ کی مٹی آنے والی نسلوں تک پہنچانا چاہتی ہے۔آج تقریباً دس برس کے بعد سید عابد امام سے ملاقات ہوئی۔ جس کا تمام تر کریڈٹ سینئر صحافی سید ثاقب نقوی کو جاتا ھے ۔ سید عابد امام کی محبت، خلوص اور مہمان نوازی نے ان کی شخصیت کا ایک نیا تعارف کروا دیا۔ میں نے انہیں ہمیشہ ایک سنجیدہ، کم گو اور متین نوجوان کے طور پر دیکھا تھا، مگر اس ملاقات میں ان کے لہجے کی گرمی اور ان کی باتوں کی تہہ میں چھپی اپنائیت نے احساس دلایا کہ یہ شخص اپنے آباؤ اجداد کے خاندانی ورثے کا سچا وارث ہے۔ ان کی گفتگو میں خانیوال کی مٹی کی خوشبو تھی اور جھنگ کی روایت کا سوز۔ وہ اپنے قبیلے، اپنے بزرگوں اور اپنے نظریاتی ورثے کے ساتھ ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے درخت اپنی جڑوں سے رس لیتا ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X