LOADING

Type to search

پاکستان

اسلام آباد (اردو ٹائمز) پاکستانی حکومت سی پیک کے منصوبوں کی تکیمل کے لیے پر عزم

Share

اسلام آباد (اردو ٹائمز) .چین-پاکستان اقتصادی راہداری سی پیك کو پاکستان کی معیشت كو مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے2015 میں 46 بلین امریکی ڈالر کی مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے سی پیک کا مقصد پاکستان کے توانائی کے بحران کو حل کرنا، بنیادی ڈھانچے (انفرا اسٹركچر) کو بہتر بنانا اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے ذریعے صنعتی ترقی کو فروغ دینا تھاپاکستانی حکومت سی پیک کے تحت تمام منصوبوں اور معاہدوں کی تکیمل کے لیے پر عزم ہے ، سی پیک پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےپاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) فیز 2 سے پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا
پاکستان اور چین نےسی پیک کے دوسرے مرحلے میں اعلیٰ معیار کی ترقی کے عزم کا اعادہ کیا ہےاور سی پیک کو اقتصادی تعاون کی بنیاد ,پائیدار دوستی کی روشن علامت قرار دیا ہے

پاک چین اقتصادی راہداری میں صنعتکاری، خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز)، صاف توانائی، زراعت اور روزگار کے منصوبوں پر زور دیا گیا ہے واضح رہے کہ پاکستان اور چین نے گزشتہ ماہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے اپ گریڈ شدہ مرحلے سی پیک فیز 2کے تحت تعاون کو آگے بڑھانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ نئے مرحلے میں پانچ اضافی کوریڈور شامل ہیں یہ مفاہمت وزیر اعظم شہباز شریف اور چینی وزیر اعظم لی کیانگ کے درمیان ملاقات میں طے پائی تھی دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات میں پیش رفت پر اطمینان اور سی پیک کے اگلے مرحلے پر مل کر کام کرنے پر اتفاق کیاتھا وزیر اعظم پاکستان نے چھ روزہ سرکاری دورہ چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران مفاہمت کی یادداشتوں (ایم او یوز) اور معاہدوں کے تبادلے کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی جس میں سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی، میڈیا، زراعت، اور سی پیک فیز 2 کی ترقی میں تعاون کا احاطہ کیا گیاتھا وزیر اعظم شہباز نے پاکستان کی علاقائی سالمیت، خودمختاری اور سماجی و اقتصادی ترقی کی حمایت پر چینی قیادت اور عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیاتھا ۔ 2 ستمبر کو چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم پاکستان شہباز کے درمیان طے پانے والے اتفاق رائے کی بنیاد پر، رہنماؤں نے دونوں ممالک کے درمیان ہمہ موسمی، لوہے سے پوشیدہ سٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیاتھا۔ وزیراعظم پاکستان نے تیانجن میں ایس سی او سمٹ کی کامیابی سے میزبانی اور مزاحمتی جنگ ,عالمی فسطائی مخالف جنگ میں چینی عوام کی فتح کی 80ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کی تھی صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین کی شاندار تبدیلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، وزیر اعظم شہباز نے کہا تھا کہ پاکستان چین کی کامیابیوں سے سیکھنا چاہتا ہے اور مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک مضبوط کمیونٹی کی تعمیر چاہتا ہے پاکستانی حکومت کا اصلاحاتی ایجنڈا چین کے تعاون سے نتائج دے رہا ہے پاکستان چینی کیپٹل مارکیٹ میں پانڈا بانڈز جاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وزیر اعظم پاکستان نے گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان کی ترقی میں سی پیک کے اہم کردار پر روشنی ڈالی تھی۔ انہوں نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت ML-I، قراقرم ہائی وے کی از سر نو ترتیب اور گوادر پورٹ کی مکمل آپریشنلائزیشن جیسے منصوبوں پر جلد عمل درآمد پر زور دیاتھا۔ وزیر اعظم نے بزنس ٹو بزنس تعاون اور سرمایہ کاری کے وسیع امکانات کو اجاگر کیاتھا انہوں نے وزیر اعظم لی کو منعقدہ سرمایہ کاری کانفرنس کے بارے میں بتایا تھا جس میں 300 سے زائد پاکستانی اور 500 چینی کمپنیوں نے شرکت کی تھی۔ انہوں نے اپ گریڈ شدہ سی پیک فریم ورک کے تحت مشترکہ اقتصادی تعاون کے لیے زراعت، کان کنی، ٹیکسٹائل، صنعت اور آئی ٹی کو ترجیحی شعبوں کے طور پر شناخت کیاتھا وزیر اعظم شہباز نے صدر شی جن پنگ کے عالمی اقدامات کے لیے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعادہ بھی کیاتھا ان میں گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو، گلوبل گورننس انیشیٹو، اور گلوبل سولائزیشن انیشیٹو شامل ہیں۔
یا د رہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبے شامل تھے، جب کہ سی پیک فیز ٹو میں دونوں ممالک زراعت، پاکستان ریلوے ایم ایل ون، تجارتی سودے، اور قراقرم ہائی وے (کے کے ایچ) کی از سر نو تعمیر پر توجہ مرکوز کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چینی کمپنیوں کے نمائندوں کے اجلاس کہا تھا کہ پاکستان اپنے آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینے اور برآمدات بڑھانے کے لیے چینی تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی ترقی میں چین کا کردار انتہائی اہم ہے، چین نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے جس پر پوری قوم چینی قیادت اور عوام کی مشکور ہے۔ وزیراعظم نے یقین دلایا تھاکہ چینی کارکنوں اور شہریوں کی حفاظت اور تحفظ حکومت پاکستان کی اولین ترجیح ہے، جب کہ حکومت نے پاکستان میں چینی شہریوں کی فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے ہیں اور اس سلسلے میں ایک جامعہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس شعبے میں چین کی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہتا ہے،وزیراعظم نے چینی کمپنیوں کو پاکستان کے الیکٹرک، ہائبرڈ آٹو سیکٹر اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی تھی پاکستان کی حکومت اور عوام اس پائیدار دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں دونوں فریقین کے درمیان سی پیک جوائنٹ ورکنگ گروپ برائے بین الاقوامی تعاون و رابطہ اجلاس میں اعتراف کیا گیاتھا کہ علاقائی رابطوں، تعاون اور مشترکہ خوشحالی کے فروغ میں سی پیک کاکلیدی کردار ہے اور فریقین نے سی پیک کو دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کی بنیاد اور پائیدار دوستی کی روشن علامت قرار دیاتھا پاکستان اور چین نے سی پیک 2 کے تحت متعارف کرائے گئے نئے راستوں یعنی ترقی، معاش، جدت طرازی، اوپن اور گرین کوریڈور اور پاکستان کے قومی ترقیاتی فریم ورک کے ساتھ ان کے انضمام پر زور دیاہےجس کا محور 5 ای ہیں، جن میں برآمدات(ایکسپورٹ)، ای پاکستان، توانائی (انرجی) ، ماحولیات (انوائرمنٹ) اور ایکویٹی شامل ہیں۔
پاکستان اور چین نے ہمیشہ دوطرفہ تعلقات کے شعبوں میں تعاون بڑھانے اور ہر موسم میں اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیاہے , پاک چین تعلقات’خصوصی اور منفرد‘ ہیں, پاکستان میں چینی سفیر وقتاً فوقتاً دوستی کے مثالی رشتے کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ چینی سال 2025 کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر نے کہا تھاکہ خنجراب پاس نے سال بھر کام کرنا شروع کیا، جو تاریخی پیش رفت ہے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ 5، جو تعمیراتی مدت کے دوران 40 ہزار براہ راست اور بالواسطہ ملازمتیں پیدا کرسکتا ہے، باضابطہ طور پر شروع ہو گیا ہے اس منصوبے میں دونوں ممالک کے درمیان عملی تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ ژی ڈونگ نے کہاتھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تعاون مستقبل میں بھی مزید گہرا ہوتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ترقیاتی حکمت عملی کو مضبوط بنانے، باہمی فائدے مند اور فائدہ مند تعاون کو گہرا کرنے، سی پیک کی تعمیر کا اپ گریڈ ورژن تیار کرنے اور نئے دور میں مشترکہ مستقبل کی چین پاکستان کمیونٹی کی تعمیر کو تیز کرنے کے لیے تیار ہیں۔ چینی سفیر نے کہا تھاکہ صدر شی جن پنگ نے پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ قریبی رابطے برقرار رکھے اور اسٹریٹجک تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔چین اپنی جدیدکاری کی ترقی کے ساتھ دنیا کو نئے مواقع فراہم کرنے کے لیے تیار ہےدوسری طرف پاکستان کی جانب سے سی پیک کے دوسرے مرحلے کو اپ گریڈ کرنے کے لیے چینی قیادت کے وژن کو سراہا گیاہے مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی وترقی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم ان راہداریوں پر دائرہ کار اور نفاذ کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے این ڈی آر سی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں گزشتہ سال چین کے نائب وزیر اعظم ہی لی فینگ نے صدر شی جن پنگ کی جانب سے تجویز کردہ 5 نئی راہداریوں کے بارے میں بتایا، جن میں گروتھ کوریڈور، ذریعہ معاش بڑھانے کیلئے کوریڈور، انوویشن کوریڈور، گرین کوریڈور، اور ریجنل کنیکٹیویٹی کوریڈور شامل ہیں۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ آپریشنل کر دیا گیا ہے اور کئی دیگر منصوبے بھی مکمل ہو چکے ہیں لہذا اب وقت آگیا ہے کہ سرمایہ کاروں اور مینوفیکچررز کو خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) کو آباد کرنے اور گوادر کی جانب راغب کیا جائے۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے لیکن اس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے بہت زیادہ کام کرنا باقی ہے پاک چین اقتصادی راہداری ,سی پیک ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔سی پیک منصوبے پاکستان اور چین دونوں کے لیے اہمیت کے حامل رہے ہیں لیکن کئی برسوں سے ان منصوبوں پر کام سست روی کا شکار ہے۔چین اب اقتصادی ترقی میں دنیا کا پہلا بڑا ملک بننے جارہا ہے خاص کر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹومنصوبہ جو 2013 میں شروع ہوا اور پہلی دہائی مکمل کرچکا ہے جس میں اس نے رابطوں اور اقتصادی ترقی کا ایک نیاطرز متعارف کرایا اب تک چین نے 151 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زیادہ بی آر آئی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں چائنیز اکیڈمی آف سائنسز نے بیرون ملک 10 سائنس اور تعلیمی مراکز قائم کئے بی آر آئی ممالک کے ساتھ100 سے زیادہ تحقیقی تعاون کے منصوبے شروع ہوچکے ہیں اور تقریباً 5,000 اعلیٰ سطح کے سائنسدانوں کو تربیت دی گئی ہے ۔

بی آر آئی ایک جامع فریم ورک میں تیار ہوا ہے جس میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تجارتی سہولت، مالی تعاون، اور ایشیا، یورپ، افریقہ اور اس سے آگے ثقافتی تبادلے شامل ہیں بی آر آئی علاقائی اور بین الاقوامی دونوں طرح کی ناگزیریت کا حامل ہے جس میں اقتصادی معجزات کو لنگر انداز کرنے چیلنجوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کی صلاحیت موجود ہے چونکہ اقتصادی عالمگیریت نظرنہ آنے والی تبدیلیوں سے گزررہی ہے عالمی اقتصادی بحالی مشکلات سے دوچار ہے ایسے میں بی آر آئی کی عالمی چمک ایک روشن لکیر بن گئی ہے جو متعلقہ ممالک اور خطوں کی اقتصادی ترقی کو بڑھانے میں زیادہ اہم کردار کو ظاہر کرتی ہے بی آر آئی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے، تجارت کو فروغ دینے اور ثقافتی تفہیم کو بڑھا کر عالمی ترقی کو آگے بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولیات سمیت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے، بی آر آئی اقتصادی ترقی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو رہے ہیںجبکہ کنیکٹیویٹی کو بہتر بنا کر اور لاجسٹک رکاوٹوں کو کم کر کے یہ اقدام سامان اور خدمات کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرتا ہے جس سے کاروباری اداروں کو اپنی رسائی کو بڑھانے اور نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے عالمی بینک کی جانب سے 2019 میں جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ بی آر آئی کے تحت نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے اگر مکمل طور پر لاگو ہوتے ہیں تو 2030 تک عالمی آمدنی میں سالانہ 1.6 ٹریلین ڈالر کے فوائد حاصل ہو سکیں گے جو کہ عالمی جی ڈی پی کا 1.3 فیصد ہے بی آر آئی چین کی طرف سے تجویز کیا گیاایک منصوبہ تھا جو پوری دنیا کے لیے مالی فوائد کے مواقع پیدا کررہا ہے مثال کے طور پر چین یورپ ریلوے چینی شہروں کو پولینڈ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک سے جوڑتی ہے اور گزشتہ سال دونوں سمتوں میں 16,000 مال بردار ٹرینیں چلائی گئیں بی آر آئی کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی ابھرتے ہوئے چیلنجوں کے لیے موافقت اور لچک اور پائیداری کے لیے اس کی وابستگی ہے ماحولیاتی خدشات کو دور کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بی آر آئی نے ماحولیاتی تعاون صاف توانائی اور پائیدار ترقی پر زور دیتے ہوئے گرین سلک روڈ کا تصور شامل کیا ہے ماحول دوست بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو ترجیح دینے گرین فنانس کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے عمل میں ماحولیاتی تحفظات کو شامل کیا جائے بی آر آئی سر سبزاور ہریالی سمیت پائیدار ترقی کو فروغ دے رہا ہے جو اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے کے مطابق گرین انفراسٹرکچر، گرین انرجی، اور گرین فنانس میں تعاون کی کوششوں میں سے ایک ہے یہ منصوبہ صحت عامہ میں تعاون پر بھی زور دیتا ہے چین اور اس کے بی آر آئی شراکت دار وبائی امراض سے نمٹنے اور روکنے، صحت عامہ کی تحقیق اور ترقی کو بڑھانے اور عالمی صحت عامہ کی حکمرانی کو بہتر بنانے کےلئے مل کر کام کرتے ہیں لچک کے لحاظ سے بی آر آئی نے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے اور جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے گزرنے کی پوری صلاحیت ہے اور اس سلسلہ میں چین نے اس منصوبہ میں شریک والے ممالک الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے تاثرات اور خدشات کا جواب دینے میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے جس سے اس منصوبہ کی عالمی سطح پر پذیرائی بھی ہوئی اور چین نے اس منصوبہ میں شفافیت، جوابدہی، اور گورننس کے معیار کوبھی بڑھایا ہے دوطرفہ اور کثیر جہتی تعاون کے ذریعے بی آر آئی فورم میں شریک ممالک کے خدشات کو دور کرنے اوربہترین طریقوں کا اشتراک کرکے آگے بڑھنے کےلئے اتفاق رائے پیدا کرنے کےلئے ایک پلیٹ فارم بھی دیا پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان میں شروع کیا گیا طویل چینی انفراسٹرکچر نیٹ ورک منصوبہ ہے پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک کے نتیجے میں 2030 تک 2.3 ملین ملازمتیں پیدا ہونگی اور ملک کی سالانہ اقتصادی ترقی میں 2 سے 2.5 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہو گاسی پیک کے خصوصی اقتصادی زونز میں جو ممکنہ صنعتیں لگائی جا رہی ہیں ان میں فوڈ پروسیسنگ، کوکنگ آئل، سیرامکس، جواہرات اور زیورات، ماربل، معدنیات، زرعی مشینری ، لوہا اور سٹیل، موٹر بائیک اسمبلنگ، برقی آلات اور آٹوموبائل شامل ہیں۔ حکومت چین کے ساتھ ملکر مزید ترقیاتی کام بھی شروع کرنے جارہی ہے بلا شبہ چین اب ایک ترقی یافتہ ملک بنتا جارہا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ اسکے ساتھ ہمسائے بھی ترقی کی دوڑ میں اسکے ساتھ شامل ہو جائیں چین دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی آبادی 1.4 بلین سے زیادہ ہے چین پانچ ٹائم زونز کے مساوی پھیلا ہوا ہے اور زمینی طور پر چودہ ممالک کی سرحدیں اسکے ساتھ لگتی ہیں جو کہ روس کے بعد دنیا کے کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ ہے تقریباً 9.6 ملین مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ یہ کل زمینی رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جسکا قومی دارالحکومت بیجنگ ہے اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور اسکاسب سے بڑا مالیاتی مرکز شنگھائی ہے پاکستان کے ساتھ چین کے جو لازوال اور خوبصورت تعلقات ہیں  ,

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X