LOADING

Type to search

پاکستان

اسلام آباد (اردو ٹائمز) وزیراعظم شہباز شریف عالمی رہنما; پاکستان امت مسلمہ کیلئے امید کی کرن

Share

اسلام آباد (اردو ٹائمز) وزیراعظم پاکستان شہباز شریف عالمی رہنما ہیں جبکہ پاکستان امت مسلمہ کیلئے امید کی آخری کرن بن چکاہے, ایٹمی پاکستان کا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل مخالف اتحاد کیلئے مسلم امہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام ایک امید ہے معرکہ حق پاک بھارت جنگ کے بعد شہباز شریف ایک عظیم عالمی رہنما بنے جبکہ قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے کے دوران شہباز شریف زیرک اورسمجھدار سیاستدان کے طورپرسامنے آئےہیں,
اس میں کوئی شک نہیں کوئی دوسرا لیڈر شہباز شریف جیسانہیں ہوسکتا ,قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے کے فوراً بعد شہباز شریف قطر گئے اور امت مسلمہ کیلئے کے لیے پاکستان کی ذمہ داریوں کو ظاہر کیااور پاکستان کا کردار امت مسلمہ کی قیادت کے لیے ایک مثال ہے۔
یاد رکھیں کہ پاکستانی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری طرح مصروف ہےجبکہ بھارتی آبی جارحیت ساری دنیا جانتی ہے جس سے ہزاروں پاکستانی متاثر ہوئے۔

اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر کے مسلمان ہم آواز ہیں,ہباز شریف کا کہنا ہے کہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کا انعقاد اس اہم پیغام کا مظہر ہے کہ ’ دنیا بھر کے مسلمان اسرائیل کی غیر قانونی اور لاپرواہ جارحیت کے خلاف ایک آواز میں بول رہے ہیں’، جو خطے کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔اسرائیل کو انسانیت کیخلاف اس کے جنگی جرائم کے لیے لازماً جواب دہ ٹھہرایا جائے، اور اسرائیلی توسیعی منصوبوں کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے, دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی کانفرنس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان دوحہ پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، سلامتی کونسل صہیونی ریاست سے فوری غیرمشروط جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کرے۔ اسرائیل نے ہمارے برادر ملک قطر کی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کی، پاکستان اپنے قطری بہن بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کااظہار کرتا ہے۔ قطر پر اسرائیل کا حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ اس کے کھلے جارحانہ عزائم کا تسلسل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنگ کے زمانے میں بھی ثالث کا کردار بہت اہم تصور کیا جاتا ہے، اور انہیں امن کے لیے مذاکرات کو زندہ رکھنے کی امید سمجھا جاتا ہے، ہم امن کے لیے قطر کی مخلصانہ اور انتھک سفارتی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے، اسرائیل کی نسل کشی کی مہم نے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے، اس جارحیت کے بعدسوال ہے کہ اسرائیل نے مذاکرات کاکاڈھونگ کیوں رچایا؟ اسرائیل کو انسانیت کیخلاف اس کے جنگی جرائم کے لیے لازماً جواب دہ ٹھہرایا جائے، اور اسرائیلی توسیعی منصوبوں کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے او آئی سی کا یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کی جائے، اور رکن ممالک اسرائیل کے خلاف موزوں اقدامات کریں سلامتی کونسل اسرائیل سے فوری غیرمشروط جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کرے۔ اہل غزہ کو انسانی امداد تک محفوظ رسائی دی جائے اور طبی اور امدادی کارکنوں اور اقوام متحدہ کےمبصرین کوداخلےکےاجازت دی جائے وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ایک آزاد فلسطینی ریاست، کے قیام کے ذریعے اس مسئلے کا دو ریاستی حل تلاش کرنا چاہیے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، قطر میں عرب اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی رہنمائوں ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز , فلسطین کے صدر محمود عباس ، امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی، تاجکستان اور مصر کے صدور سے بھی ملاقاتیں کیں واضح رہے کہ ہنگامی سربراہی اجلاس اسرائیل کے قطر پر حملے کی مذمت اور خطے پر اثرات پر تفصیلی تبادلہ خیال کے لیے طلب کیا گیا ہے جس میں 50 سے زائد رکن ممالک کے سربراہان شریک ہیں,انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات بھی کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کی جانب سے دوحہ پر جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، وزیراعظم نے اسرائیل کے اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے مشرق وسطیٰ میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک دانستہ کوشش قرار دیا شہباز شریف نے کہا کہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کا انعقاد اس اہم پیغام کا مظہر ہے کہ ’ دنیا بھر کے مسلمان اسرائیل کی غیر قانونی اور لاپرواہ جارحیت کے خلاف ایک آواز میں بول رہے ہیں’، جو خطے کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔سعودی ولی عہد نے کہا کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کے اس ہفتے کے آخر میں ریاض کے دورے کے منتظر ہیں، جو دونوں ممالک کو دوطرفہ، علاقائی اور عالمی امور پر جامع تبادلہ خیال کا ایک اہم موقع فراہم کرے گا۔سعودی ولی عہد نے وزیراعظم کی قیادت اور پاکستان کی فعال سفارتی کوششوں کی بھی تعریف کی، جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور تنظیم تعاون اسلامی میں قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی شامل ہے۔دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں مسلم ممالک نے کہا ہے کہ قطرپر اسرائیلی حملہ خطےمیں امن کی کوششوں کےلیے دھچکا ہے، قطر پر اسرائیل کے بزدلانہ اور غیرقانونی حملےکی مذمت کی جاتی ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ قطر پر اسرائیل کے بزدلانہ اور غیرقانونی حملےکی شدید الفاظ میں مذمت اور قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی اورردعمل کیلئے اس کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں ,قطر کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت خطے میں امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتی ہے، غیرجانبدار ثالث پر حملہ امن کی کوششوں کے لیے خطرہ ہے ، قطر پر مزید حملوں کی اسرائیلی دھمکیوں کو مسترد کیا جاتا ہے فلسطین پر اسرائیلی قبضہ 1967کی سرحدوں کے مطابق ختم ہونا چاہیے۔ اعلامیے میں حملے سے نمٹنے میں قطر کے مہذب اور دانشمندانہ مؤقف کی تعریف اور غزہ میں جارحیت روکنے کیلئے ثالث قطر، مصر اور امریکا کی کوششوں کی حمایت کی گئی مزید کہا گیا کہ کسی بھی بہانےاسرائیلی جارحیت کو جوازفراہم کرنے کی کوششوں کویکسرمستردکرتے ہیں۔ عرب لیگ نے اسرائیلی حملے کے بعد قطرسے مکمل یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے عرب ریاستوں نے’ مشترکہ سلامتی وتعاون کا وژن’ منظور کرلیا۔ عرب لیگ نے کہا کہ مسلم ممالک کواجتماعی خطرات کا متحدہوکرمقابلہ کرنا ہوگا، ریاستی خودمختاری کااحترام اوراندرونی معاملات میں عدم مداخلت ضروری ہے۔

قبل ازیں دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں مسلم ممالک کے سربراہان نے کہا کہ اسرائیل نے تمام ریڈلائنزکراس کرلی ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹراورعالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا، اور مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا، صہیونی جارحیت روکنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے کہا ہے کہ اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کردیں،مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا۔ ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر قطرنے کہا کہ اسلامی ملکوں کے رہنماؤں کی دوحہ آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے قطرکی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی، قطرنے ثالث کے طور پر خطے میں امن کیلئے مخلصانہ کوششیں کیں۔ اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژکرتے ہوئے حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا، اسرائیل کی جانب سے خطے کے ملکوں کی خودمختاری کی خلاف ورزی قابل مذمت ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے، اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کردی ہیں یرغمالیوں کی پرامن رہائی کے تمام اسرائیلی دعوے جھوٹے ہیں، گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے صیہونی حکومت انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہوئی ہے، اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی سنگین پامالی لمحہ فکریہ ہے اسرائیل کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں سے امن کو خطرات لاحق ہیں، مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے مسئلہ فلسطین حل کرناہوگا۔دریں اثنا سیکریٹری جنرل عرب لیگ احمد ابوالغیط نے کہا کہ ہم ایک ایسے وقت میں اکٹھے ہوئے ہیں جب خطے کو بہت چیلنجز درپیش ہیں اسرائیل کی دہشت گردی نے صورتحال کو گمبھیرکردیا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنا ہم سب کی ذمے داری ہے عالمی برادری کوجنگی جرائم پر اسرائیل کی جوابدہی کرنا ہوگی۔عراق کے وزیراعظم محمد شیاع السودانی نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت نے خطے کے مسائل کو سنگین کردیا ہے۔ اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پرعالمی برادری کی خاموش معنی خیز ہے، عالمی برادری کو دوہرامعیارترک کرناہوگا۔ اسرائیلی مظالم، اور بھوک، تباہ حال انفرااسٹرکچرنے غزہ میں زندگی مشکل کردی ہے۔ اسرائیلی اقدامات ہماری اجتماعی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہم اجلاس طلب کرنے پر امیر قطرکا مشکورہوں، اسرائیل کے جارحانہ اقدامات پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ اسرائیل نے تمام ریڈلائنزکراس کرلی ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیل کو کوئی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔ اسرائیل دانستہ طور پر خطے کا امن تباہ کرنے کے درپے ہے، جبر اور تشدد سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔فلسطین کے صدرمحمود عباس نے کہا کہ اسرائیل کے جنگی جرائم تمام حدیں پارکرچکے ہیں، صہیونی جارحیت روکنے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنا اور فوری امدادکی فراہمی ناگزیر ہے۔ 1967کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام ہی امن کا راستہ ہے۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ قطرکے ساتھ مکمل یکجہتی کااظہارکرتے ہیں، مسلمان ملکوں کی طرف سے قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی قابل ستائش ہے۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم مشرق وسطیٰ اورعالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہیں، اسرائیل سمجھتاہے کہ اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کانہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے، نسل کشی،قبضہ،بھوک اور تشدد اسرائیل کی پالیسی ہے، کھلی جارحیت اور جرائم پر صہیونی حکومت کو رعایت نہیں دی جاسکتی مسلمان ملکوں کو اپنی صفوں میں اتحاد کے ذریعے آگے بڑھنا ہے، آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کیلئے ہمیں باہمی تعاون بڑھانا ہوگا۔ او آئی سی فریم ورک کے تحت اسرائیل کوعالمی عدالت انصاف میں لانے کیلئے حکمت عمل وضع کی جائے۔یاد رکھیں کہ یہ بات چین بارہا دہرا چکا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے بغیر دنیا میں استحکام ممکن نہیں اور یہ کہ مسئلہ فلسطین ہمیشہ سے مشرقِ وسطیٰ کی کشیدگی کا مرکز رہا ہے یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اسرائیل-فلسطین تنازع کے پُرامن حل اور ’دو ریاستی حل‘ کے قیام کے لیے عملی لائحہ عمل وضع کیا ہے، جو اس طویل تنازع کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کا مسودہ منظور کیا، جس میں نیویارک ڈیکلریشن برائے فلسطین کے مسئلے کے پُرامن حل اور دو ریاستی حل کے نفاذ کی توثیق کی گئی۔ یہ قرارداد 142 ووٹوں کے ساتھ منظور کی گئی، جس کے خلاف محض 10 ووٹ پڑے، جب کہ 12 ارکان غیر حاضر رہے، یہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ بین الاقوامی برادری فلسطینی مسئلے کے حل کے بارے میں کس مؤقف پر متفق ہے۔ یہ ڈیکلریشن جولائی میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹرز نیویارک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے، جسے فرانس اور سعودی عرب نے منظم کیا تھا اور جو اس ماہ کے آخر میں دوبارہ منعقد ہوگی۔ اس ڈیکلریشن اور اس کے ضمیمے میں واضح کیا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت میں فلسطینی ریاست کیسے قائم ہوگی، غزہ کی تعمیر نو کیسے ہوگی اور ایک متحدہ فلسطینی ریاست، اسرائیل کے ساتھ ہمسایہ تعلقات کس طرح قائم رکھے گی۔ فرانس، سعودی عرب اور کانفرنس کی ورکنگ گروپس کے شریک صدور کو اب ایسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں جو غزہ میں جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، فلسطینی قیدیوں کی واپسی، اقوامِ متحدہ کے تعاون سے غزہ بھر میں بڑے پیمانے پر امداد کی ترسیل اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 کے مطابق اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کی طرف لے جائیں۔ جیسا کہ ڈیکلریشن میں کہا گیا ہے کہ غزہ فلسطینی ریاست کا لازمی حصہ ہے اور اسے مغربی کنارے کے ساتھ دوبارہ یکجا کیا جانا چاہیے، فلسطینی علاقوں میں حکمرانی، قانون نافذ کرنے اور سلامتی کی ذمہ داری صرف فلسطینی اتھارٹی پر ہونی چاہیے، جس کے لیے مناسب بین الاقوامی تعاون دستیاب ہو۔ ڈیکلریشن میں فلسطینی اتھارٹی کی حمایت پر زور دیا گیا ہے جس میں حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے ارکان کی تخفیفِ اسلحہ، عسکریت سے دستبرداری اور دوبارہ انضمام کو بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ طے شدہ طریقہ کار اور ٹائم لائن کے تحت ممکن بنایا جائے، لیکن چاہے یہ اقدامات کتنے ہی تفصیل سے بیان کیے گئے ہوں، یہ ایک غیر پابند دستاویز ہے جس کے نفاذ کے لیے اسرائیل، حماس اور دیگر فریقین کا تعاون درکار ہے۔ اسے مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری ڈیکلریشن پر عمل درآمد کے لیے مربوط کوششیں کرے، سب سے زیادہ فوری ضرورت یہ ہے کہ متعلقہ اقوامِ متحدہ کے ادارے اور بڑی طاقتیں اسرائیل کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ غزہ کے راستے کھولے اور یہ یقینی بنائے کہ انسانی ہمدردی کی امداد ان فلسطینی عوام تک پہنچ سکے جو کھانے پینے کی اشیا اور روزمرہ ضروریات کے لیے سخت پریشان ہیں۔ مصر، قطر اور امریکا کی ثالثی کی کوششیں بھی جاری رہنی چاہئیں، تاکہ پہلے فوری جنگ بندی ہو، اور پھر حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے ذریعے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کی واپسی پر معاہدہ کیا جا سکے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک متحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے کچھ بھی کرنے سے پہلے غزہ میں جنگ بندی ناگزیر ہے، ساتھ ہی محصور عوام کو انسانی امداد کی فراہمی اولین ترجیح ہے۔ اسرائیل اور تمام فلسطینی تنظیموں کو قائل کیا جانا چاہیے کہ ایک دوسرے پر حملے جاری رکھنا ’شیطانی دائرہ‘ ہے جو دونوں عوام کے لیے پائیدار امن اور خوشحالی کے حصول کے راستے میں رکاوٹ ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے ہم آہنگ ترقی کی بھی راہ میں حائل ہے۔ یہ خام خیالی ہے کہ اسرائیل یا فلسطین میں سے کوئی بھی دوسرے کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے، دو ہمسایہ ممالک کے طور پر پُرامن بقائے باہمی ہی فلسطینی مسئلے کا واحد حل ہے۔ چین طویل عرصے سے ’دو ریاستی حل‘ کی حمایت کرتا آیا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ ایک متحدہ فلسطینی ریاست کا قیام اس مسئلے کے مستقل حل اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن کے لیے ضروری ہے مزید ممالک، خصوصاً یورپی ملک بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں، بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی سفارتی کوششیں تیز کریں اور جو کچھ بھی ممکن ہو وہ کریں تاکہ ’دو ریاستی حل‘ حقیقت کا روپ دھار سکےدوسری طرف نائب وزیراعظم پاکستان اسحٰق ڈار نے پاکستان کی طرف سے بطور ایٹمی طاقت مسلم امہ کے ساتھ کھڑے رہنے کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ’بہت بڑی‘ اور ’موثر‘ ہیں اور انہوں نے روایتی جنگ میں اپنی صلاحیتیں ثابت کی ہیں۔ قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں اسحٰق ڈار نے یہ بات اس سوال کے جواب میں کہی کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے کوئی مشترکہ ادارہ قائم کیا گیا تو پاکستان کس موقف پر کھڑا ہوگا۔ الجزیرہ کے اسامہ بن جاوید نے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار سےسے پوچھا کہ کیا اقوامِ متحدہ کے دائرہ کار سے ہٹ کر مشرقِ وسطیٰ میں کوئی متحدہ ادارہ غزہ میں مداخلت کے لیے متوقع طور پر تشکیل دینے کا آپشن زیرِ غور ہے۔ اس کے جواب میں اسحٰق ڈار نے ابتدا میں کہا کہ ’سلامتی کونسل کے طرز پر ایک طریقہ کار وضع کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر، انہوں نے ان ممالک پر بہت سخت پابندیاں عائد کی ہیں جو ان کی بات نہیں مانتے، اور یہ کسی بھی ملک کے لیے ایک بہت شدید اقتصادی دھچکا یا تکلیف کا سبب بن سکتی ہیں’میزبان نے سوال کیا کہ کیا حالیہ بات چیت میں عرب ممالک اور عرب لیگ کے درمیان ’کسی قسم کی مشترکہ سیکیورٹی فورس‘ کے بارے میں بات ہوئی ہے؟نائب وزیراعظم پاکستان اسحٰق ڈار نے کہا، ’کیوں نہیں؟ اس میں کیا برا ہے؟ ان کی ایک مشترکہ فوج ہونی چاہیے، اور اپنی صلاحیت اور قوت کے مطابق انہیں کوئی طریقہ کار بنانا چاہیے، جس کا مقصد جارحیت نہیں بلکہ امن قائم کرنا ہو، جارح اور قابض کو روکنا ہو، اس شخص کو روکنا ہو جو کسی کی نہیں سنتا‘۔اس سوال پر کہ ’جوہری قوت رکھنے والا پاکستان‘ اس صورتِ حال میں کہاں کھڑا ہوگا؟ اسحٰق ڈار نے جواب دیا ’جوہری قوت رکھنے والا پاکستان، امت کے رکن کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرے گا‘میزبان نے پھر سوال کیا کہ وہ اس جواب کی مزید وضاحت چاہیں گے، اس پر نائب وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کو صرف دشمن کو باز رکھنے والی قوت سمجھتا ہے اور انہیں استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، ہمارا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ارادہ نہیں، یہ صرف ‘ڈیٹیرنس‘ کے لیے ہیں’۔ ’لیکن پاکستان کی ایک بہت بڑی، معروف، بہت موثر فوج ہے، بہت موثر ایئرفورس ہے، بہت موثر بحریہ ہے، ہم نے ثابت کیا ہے کہ روایتی طور پر بھی اگر چیلنج کیا جائے تو ہم اپنے حریف کو مات دے سکتے ہیں‘۔انٹرویو کے دوران قطر میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیل حملے کا بھی بھی ذکر آیا، اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ کسی خودمختار ملک پر حملہ کرنے کی اسرائیل کی وجوہات ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جب یہ حملہ ہوا تو قطر، امریکا اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی ثالثی کر رہا تھا، اسحٰق ڈار نے اسرائیل کی اس کارروائی کو ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل، مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک پر حملہ کر چکا ہے اور بین الاقوامی قوانین، انسانی ہمدردی کے اصول، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور سلامتی کونسل کی قراردادیں ایک ایسے ملک پر بالکل بھی اثر انداز نہیں ہو رہیں جو بار بار اپنی مرضی کے مطابق اقدامات کرتا ہے۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ کثیرالجہتی نظام کو ابھی فوری طور پر بہت سنگین اصلاحات کی ضرورت ہے‘۔ ’ریاست بڑی ہو یا چھوٹی، اس کی عزت و وقار یکساں ہونا چاہیے‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے بنی ہے، اور اگر اس کی قراردادوں کو محض ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے، جیسا کہ کئی سالوں سے اسرائیل، غزہ اور فلسطین جبکہ بھارت، کشمیر میں کر رہا ہے، تو ہم اس کثیرالجہتی نظام سے کیا توقع رکھیں؟’ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا دنیا کے تمام مسلمان ممالک برابر وزن رکھتے ہیں اور ’وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو انہیں کرنا چاہیے؟‘ تو اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کا یقین ہے کہ چاہے کوئی ریاست بڑی ہو یا چھوٹی، اس کی ’عزت اور وقار یکساں ہونا چاہیے‘۔ اس حوالے سے وہ ہمیشہ بھارت کی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’کچھ ملک دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بالادستی رکھتے ہیں، خطے کے سیکیورٹی فراہم کنندہ ہیں، پورے خطے کے کپتان ہیں، لیکن آپ نے دیکھا کہ 7 سے 10 مئی کے درمیان کیا ہوا، سب کچھ واضح ہوگیا، بالادستی دفن ہوگئی‘، اسحٰق ڈار کا اشارہ دراصل پاکستان اور بھارت کے درمیان 4 روزہ مسلح کشیدگی کی طرف تھا اس وقت پاکستان کی عسکری کارروائی دراصل دفاع میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک غزہ کے مسئلے پر سفارت کاری اور مذاکرات بہترین آپشن ہیں، اس میں وقت لگتا ہے لیکن جب آپ میز پر بیٹھتے ہیں تو حل تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اگر آپ مخلص نہیں اور آپ کے توسیع پسندی جیسے منفی اور بُرے عزائم ہیں، تو پھر آپ کبھی بھی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہوں گے، اس لیے مذاکرات میں اخلاص بھی ضروری ہے۔سوال کیا گیا کہ کیا اسرائیل، قطر کے بعد پاکستان پر بھی حملہ کر سکتا ہے تو اسحٰق ڈار نے یاد دلایا کہ بھارت نے یہ کوشش کی تھی اور ہماری معلومات کے مطابق اسرائیل نے اسے مکمل تعاون فراہم کیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ دعویٰ بے نقاب ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ ’ہم تیار ہیں، دوبارہ دہراتا ہوں کہ ہم امن چاہتے ہیں، ایک جوہری طاقت رکھنے والی ریاست خطے میں عدم استحکام نہیں چاہتی کیونکہ اس کے اثرات خطے سے بھی آگے جائیں گے‘، انہوں نے ساتھ ہی زور دیا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں اصلاحات کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیل اور بھارت واحد ایسے ممالک ہیں جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پابندی نہیں کرتے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سلامتی کونسل میں ایک ایسا طریقہ کار تیار کیا جانا چاہیے جو عملی اقدامات اٹھا سکتاکہ اگر قراردادوں پر عمل نہ ہو تو صورتحال کو قابو میں رکھا جا سکے اور اس کے لیے ممکن ہے کہ عملی کارروائیاں یا عملی مداخلتیں درکار ہوں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X