LOADING

Type to search

پاکستان

بیجنگ(اردو ٹائمز) چینی کار ساز کمپنی بی وائی ڈی کا پاکستان میں اپنی گاڑیاں متعارف کروانے کا اعلان

Share

حال ہی میں ایک خبر نظر سے گزری کہ بی وائی ڈی کمپنی پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتی ہے اور تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں فلیگ شپ اسٹورز اور ایکسپیرینس سینٹرز کھولے گی اور تین سال کے اندر ملک بھر میں 20 سے 25 ڈیلرز قائم کرے گی اور اس سال کی چوتھی سہ ماہی میں دو ایس یو وی اور ایک سیڈان سمیت تین ماڈلز کی فروخت شروع کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بی وائی ڈی مقامی مینوفیکچررز کے تعاون سے کراچی میں ایک فیکٹری تعمیر کرے گی جس کے 2026 کی پہلی ششماہی میں مکمل ہونے کی توقع ہے جو پاکستان کا پہلا نیو انرجی وہیکل اسمبلنگ پلانٹ ہوگا۔

بی وائی ڈی کے پاکستانی مارکیٹ میں داخلے سے نہ صرف ملک میں چین کی الیکٹرک گاڑیوں کا اثر و رسوخ بڑھے گا بلکہ توانائی کی منتقلی اور ماحول دوست ترقی کے شعبوں میں پاکستان کی جدت طراز ترقی میں بھی مدد ملے گی۔اس کے ساتھ ہی ایک اور خبر بھی پڑھنے کو ملی جس میں کہا گیا ہے کہ یورپی کمیشن چینی الیکٹرک گاڑیوں پر 36.3 فیصد تک ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو بلاشبہ ایک عام تحفظ پسند اور سیاسی طور پر غالب طرز عمل ہے۔

یہ معروضی حقائق اور ڈبلیو ٹی او کے قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے “منصفانہ مسابقت” کے نام پر “غیر منصفانہ مسابقت” پر مبنی عمل ہے ۔ یورپی کمیشن کے اس فیصلے نے نہ صرف چینی کارساز کمپنیوں میں شدید عدم اطمینان پیدا کیا ہے بلکہ کئی یورپی کارساز کمپنیوں کی جانب سے بھی اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ بی ایم ڈبلیو، ووکس ویگن اور مرسڈیز بینز جیسی یورپی کارساز کمپنیوں کے سربراہان نے کہا ہے کہ یورپی کمیشن کی جانب سے چینی الیکٹرک گاڑیوں پر محصولات میں اضافہ ایک غلط فیصلہ ہے اور اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ چین کی نئی توانائی گاڑیوں کے تیزی سے عروج اور دنیا میں اس کی قائدانہ حیثیت کے سامنے ، یورپی یونین بوکھلاہٹ ، رشک ، حسد اور نفرت کے جذبات رکھتی ہے۔ کیا وہ باہمی تعاون اور باہمی فائدے اور جیت جیت نتائج کے اصول سے واقف نہیں ؟ ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ صرف چین کی ترقی کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے ، اس لیے بارہا ایسی کوششیں کیں جو دوسروں اور خود کو نقصان پہنچاتی ہیں۔یورپی یونین کی طرف سے جاری کردہ بلند محصولات کے سامنے ، صارفین کا رد عمل حقیقی رہا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *