اسلام آباد (اردو ٹائمز) 27 ویں ترمیم کی بازگشت حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل
Share
اسلام آباد (اردو ٹائمز) 27 ویں ترمیم کی بازگشت ہےحکمران اتحاد کو قومی اسمبلی ترمیم کی منظوری کے لیے واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہے، 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پاکستان پیپلزپارٹی ( پی پی پی) کی حمایت کے بغیر ناممکن ہے، ترمیم کے لیے حکومت کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت کی لازمی درکار نہیں ہے۔ حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پی پی پی کے 74 ارکان، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے 22، پاکستان مسلم لیگ 5 ، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 ارکان اتحاد کا حصہ ہیں۔ مسلم لیگ ضیا، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) بھی حکومت کے ساتھ ہے، 4 آزار ارکان بھی قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے 89 ارکان موجود ہیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے آزاد اراکین کی تعداد 76 ہے، جے یو آئی (ف) کے 10 ارکان، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کا ایک، ایک رکن ہے۔ سینیٹ میں 2 تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) جمعیت علمائے اسلام (ف) ، آزاد اراکین کی حمایت پر انحصار کرنا ہوگا، سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین کی تعداد 61، اپوزیشن اراکین کی تعداد 35 ہے۔ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 اراکین کی ضرورت ہے۔ حکمران اتحاد میں پی پی پی کے 26، (ن) لیگ کے 20، باپ کے 4، ایم کیو ایم 3، (ق) لیگ اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر ہے۔ سینیٹ میں حکومتی حمایت یافتہ آزاد اراکین کی تعداد 6 ہے۔ حکومت کو سینیٹ میں 27 ویں ترمیم کی منظوری کے لیے جے یو آئی یا اے این پی کے 3 اراکین کی حمایت لازمی درکار ہوگی۔خیال رہے کہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ دعویٰ کیے جانے کے بعد کہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے اس کی حمایت مانگی ہے، 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے قیاس آرائیوں اور بحث میں شدت آگئی۔
مجوزہ آئینی ترامیم نے ملک بھر میں بحث چھیڑ دی ہے، کیونکہ مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مؤقف طے کر رہی ہیں، جبکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اقدام سے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو دیے گئے کچھ اختیارات واپس لیے جا سکتے ہیں۔حزبِ اختلاف کی جماعت تحریکِ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ وہ مجوزہ ترمیم کی ’ڈٹ کر‘ مخالفت کرے گی۔
خیال رہے کہ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی ترمیم کی منظوری کے لیے واضح دو تہائی اکثریت حاصل ہے، 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پاکستان پیپلزپارٹی ( پی پی پی) کی حمایت کے بغیر ناممکن ہے، ترمیم کے لیے حکومت کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت کی لازمی درکار نہیں ہے۔حکومت کو قومی اسمبلی میں 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جب کہ حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پیپلزپارٹی کے 74 ارکان، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے 22، پاکستان مسلم لیگ 5 ، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 ارکان اتحاد کا حصہ ہیں۔ مسلم لیگ ضیا، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) بھی حکومت کے ساتھ ہے، 4 آزاد ارکان بھی قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ دوسری جانب، اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے 89 ارکان موجود ہیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے آزاد اراکین کی تعداد 76 ہے، جے یو آئی (ف) کے 10 ارکان، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کا ایک، ایک رکن ہے۔ سینیٹ میں 2 تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) جمعیت علمائے اسلام (ف) ، آزاد اراکین کی حمایت پر انحصار کرنا ہوگا، سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین کی تعداد 61، اپوزیشن اراکین کی تعداد 35 ہے۔ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 اراکین کی ضرورت ہے۔ حکمران اتحاد میں پیپلزپارٹی کے 26، مسلم لیگ (ن) کے 20، باپ کے 4، ایم کیو ایم 3، (ق) لیگ اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر ہے۔ سینیٹ میں حکومتی حمایت یافتہ آزاد اراکین کی تعداد 6 ہے۔ حکومت کو سینیٹ میں 27 ویں ترمیم کی منظوری کے لیے جے یو آئی (ف) یا اے این پی کے 3 اراکین کی حمایت لازمی درکار ہوگی۔ تقسیم یا پولرائزیشن کے شکار اس دور میں صرف عوام نہیں بلکہ سیاستدان بھی ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز میں ایک دوسرے پر ان کے حملے حقیقت بن چکے ہیں، اس حد تک کہ جب وہ کسی بڑے مقصد کے لیے متحد ہوتے ہیں، تو اسے شاذ و نادر ہی محسوس کیا جاتا ہے اور اس سے بھی کم سراہا جاتا ہے۔ چند سال قبل کے اس لمحے پر غور کریں جب ان سب نے جنرل باجوہ کی توسیع کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہاتھ ملائے تھے۔ یہ ایک بڑے مقصد کے لیے تھا، اس وقت بہت کم لوگوں نے محسوس کیا کیونکہ وہ پارلیمنٹیرینز کو ہدف تنقید بنانے میں مصروف تھے۔ اسی طرح کی صورت حال پنجاب میں حالیہ دنوں دیکھنے میں آئی کہ جب سیاستدان صوبائی اسمبلی کی چھت تلے جمع ہوئے تاکہ بلدیاتی نظام یا مقامی حکومتوں کے مطالبے میں قرارداد کو منظور کیا جاسکے۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نوجوان اراکینِ صوبائی اسمبلی کی جانب سے مشترکہ طور پر پیش کیا جانے والا مسودہ اتنا متاثر کُن تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی اراکین نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا۔ دونوں فریقین وفاق یا کسی اور صوبے میں تو حالتِ جنگ میں تو ہو سکتے ہیں لیکن پنجاب میں مقامی حکومتوں کے معاملے میں سب ہی شیر و شکر نظر آئے۔ انہوں نے ایسے بلدیاتی اداروں کا مطالبہ کیا ہے جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہو اور جن کے کام کی مدت اور ذمہ داریاں واضح طور پر متعین کی گئی ہوں۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے یا انہیں تحلیل کیے جانے کے 90 دن کے اندر نئے انتخابات لازمی کروائے جائیں اور صوبائی فنانس کمیشن کو نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) سے منسلک کیا جائے۔ نہ صرف قانون ساز اس مطالبے کے لیے اکٹھے ہوئے بلکہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان جو ماضی میں نہ صرف اپنی جماعت بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے پُرجوش دفاع کے لیے بھی جانے جاتے ہیں، نے وقت نکال کر ایک پریس کانفرنس میں اس قرارداد کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ ایک خبر کے مطابق انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مؤثر مقامی حکومت موجود نہ ہو تو ریاست اور عوام کے درمیان تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کو بلدیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور سیاسی جماعتوں کو محض سیاسی مقاصد کے لیے بلدیاتی اداروں کی مدت کم کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ یہ سب سیاستدانوں پر الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ بلدیاتی اداروں کے خلاف ہیں اور عوام کی ضروریات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ لیکن سیاسی طبقے کے خلاف منفی ذہن سازی کے سلسلے کو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ عوام میں بےاعتمادی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کہ وہی سیاستدان جو بلدیاتی اداروں کے بارے میں فکرمند دکھائی دیتے ہیں، حال ہی میں پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے اُس قانون کی حمایت میں بھی کیوں شامل تھے جو بظاہر انہی اصولوں کے منافی ہے جن کے بارے میں وہ اتنے بے چین ہیں۔ یہ نیا قانون گزشتہ ماہ منظور کیا گیا ہے اور اس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس کے ذریعے اصل اختیارات صوبائی حکومت اور بیوروکریسی کے پاس رہیں گے۔ جس پہلو نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی ہے، وہ یہ ہے کہ نئے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں گے لیکن یہ صرف ووٹ ڈالنے اور گنتی کی حد تک ہوگا۔ جو امیدوار آزاد حیثیت سے کامیاب ہوں گے، ان کے پاس 30 دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا اختیار ہوگا مگر اس مدت کے بعد نہیں۔ نائب وزیرعظم اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم جلد پارلیمان میں پیش کی جائے گی، پیپلز پارٹی سے ترمیم پر بات چیت کی ہے، اب دوسرے اتحادیوں سے بات چیت کریں گے۔ سینیٹ اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم حکومت لارہی ہے اور اسے آئین و قانون کے مطابق پیش کریں گے۔ 27 ویں آئینی ترمیم رولز کے مطابق متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں جائے گی اور میں علی ظفر کو یقین دلاتا ہوں کہ 27 ویں آئینی ترمیم پر باقاعدہ بحث ہوگی۔ حکومت سے درخواست کروں گا کہ اس بار ترمیم کو پہلے سینیٹ میں لایا جائے۔ پیپلز پارٹی سے ترمیم پر بات چیت کی ہے، اب دوسرے اتحادیوں سے بات چیت کریں گے ، سارا عمل شفاف طریقے سے کیا جائے گا۔ 27 ویں آئینی ترمیم کو کمیٹی میں بھیجا جائے تاکہ اس پر بات چیت ہو، سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کمیٹی کے ممبران کو بھی بلا لیں، دونوں کمیٹیوں کے ارکان بیٹھ کر ایک ہی جگہ پر 27 ویں آئینی ترمیم پر بحث کرلیں گے۔ بلاول بھٹو کی ٹوئٹ میں نے دیکھی ہے، انہوں نے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے ان پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ سینیٹر اسحٰق ڈار نے نے کہا کہ لیڈر آف دی اپوزیشن کی تعیناتی بالکل ہونی چاہیے، لیڈر آف اپوزیشن کی ذمہ داری چیئرمین سینیٹ کی ہے، حکومت تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہی، چیئرمین سینیٹ اس معاملے کو دیکھ کر رولز کے مطابق جلد تعینات کریں۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا، افغانستان سے با رہا کہا کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے پاکستان میں خودکش دھماکے عروج پر پہنچ گئے تھے، دس سال پہلے بہت زیادہ دہشتگردی تھی، اس وقت بھی سول ملٹری قیادت نے مل کر بیٹھیں پھر ضرب عضب شروع کیا گیا۔ ملک کے اندر آنے والوں کو نکالنے کے لیے رد فساد شروع کیا گیا، تمام آپریشنز سے دہشتگردی بہت کم ہو گئی تھی، مگر کیا غلط ہوا ہمیں دیکھنا چاہیے تاکہ دوبارہ غلطی نہ کریں جمعیت علمائے اسلام نے ہمیشہ قومی ایشوز میں اپنا حصہ ڈالا ہے، مداس میں اگر اصلاحات لائی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مدرسوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بنیادی طور پر مفاہمت اور بات چیت پر یقین رکھتا ہوں، جو لوگ سیاستدانوں پر اعتماد کھو چکے ہیں، وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ صورت حال جنرل ضیا الحق کے دور کے انتخابات کی یاد تازہ کرتی ہے۔ انہوں نے بھی پیپلز پارٹی کی ممکنہ کامیابی کے خدشے کے پیش نظر غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے تھے لیکن اس امید پر کہ اس طرح ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جسے وہ آسانی سے قابو میں رکھ سکیں گے۔ لیکن یہ تجزیہ تھوڑا غیرحقیقی معلوم ہوتا ہے۔ آخر کوئی بھی شخص یہاں تک کہ کوئی ایسا شخص بھی جو سیاستدانوں پر بھروسہ نہیں کرتا، یہ کیوں سوچے گا کہ قانون ساز صرف وہی کرنے کے لیے قانون منظور کریں گے جو ایک فوجی حکمران کی خواہش ہے؟ اور کون یقین کرے گا کہ آج کے منتخب سیاستدان اسی طرح کام کریں گے جیسا کہ 40 سال پہلے سیاستدان کیا کرتے تھے؟ اس کے بعد سے دنیا بدل چکی ہے اور پاکستان بھی۔ درحقیقت اگر 40 سال پہلے کی صورت حال سے موازنہ کرنا ہو تو 1985ء کی اسمبلی اور اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اتنی رکاوٹیں ڈالنے والے ثابت ہوئے کہ ضیا الحق کو ان کی حکومت کو تحلیل کرنا پڑا تھا۔ لیکن موجودہ دور میں ایسی کوئی مشکلات نہیں ہیں کیونکہ آج سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ ایک طرح کی ہم آہنگی کی حالت میں ہیں جہاں دونوں ‘ہم ساتھ ساتھ ہیں’ کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔ ان خوشگوار تعلقات پر سوال اٹھانے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے جوکہ کافی حد تک قدرتی لگتی ہے۔ درحقیقت یہ صرف حسنِ اتفاق ہے کہ پنجاب اسمبلی میں سیاستدانوں نے بلدیاتی نظام کی ضرورت اور اہمیت کو دریافت کرلیا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں کہ جب اسلام آباد اور ایک قریبی شہر میں حکومت اور معیشت کو ‘ٹھیک’ کرنے کے طریقوں پر بحث جو کئی ماہ سے چل رہی ہے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ سوال یہ تھا کہ کیا معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے صرف این ایف سی کی تشکیل نو کافی ہوگی یا 4 صوبوں کو مزید تقسیم کرکے کسی گورننس مسئلے کو بھی حل کرنے کی ضرورت پیش آئے گی؟ یاد رہے کہ 20 اور 21 اکتوبر 2024 کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے 22 شقوں پر مشتمل 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی، تحریک کی منظوری کے لیے 225 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا وفد صدر زرداری اور مجھ سے ملنے آیا تھا، لیگی وفد نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حمایت مانگی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اور ججوں کے تبادلے کا اختیار شامل ہے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں این ایف سی میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ اور آرٹیکل 243 میں ترمیم کے نکات بھی شامل ہیں، مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے اختیارات کی وفاق کو واپسی اور الیکشن کمیشن کی تقرری پر جاری تعطل ختم کرنا شامل ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 6 نومبر کو صدرِ پاکستان کے دوحہ سے واپسی پر طلب کیا گیا ہے تاکہ پارٹی پالیسی کا فیصلہ کیا جاسکے۔ دریں اثنا، پیپلزپارٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس جمعرات 6 نومبر کو طلب کرلیا۔ اعلامیے کے مطابق بلاول ہاؤس کراچی میں منعقدہ اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹوکمیٹی ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر غور کرے گی۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ 27ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، ترمیم اگر آرہی ہے تو اس میں جمہوریت کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں۔رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو منانے کا ارادہ ہے، جن چیزوں کا ذکر بلاول بھٹو نے کیا، کون سی چیز ہے جو زیر بحث نہیں رہی؟ ان چیزوں پر تو گفتگو دو چار ماہ سے ہو رہی ہے، اتحادیوں اور دیگر سے بات کریں گے۔ وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ 27ویں ترمیم پر ابھی مشاورت کا آغاز ہوا ہے، اسٹیک ہولڈز سے مشاورت ہوگی، میثاق جمہوریت میں ہمارا پہلے دن سے موقف ہے کہ آئینی عدالت بننی چاہیے۔ رانا ثنا نے کہا کہ ایک بندے کے بہت عرصے تک موجود رہنے سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، معزز ججز صاحبان کا بہت احترام کرتا ہوں، جو بھی اختیار ہوگا وہ چیف جسٹس صاحبان اور جوڈیشل کمیشن کے پاس ہی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں شامل تھیں، اس وقت سیاسی جماعتوں کا فیصلہ تھا کہ آئینی عدالت ہونی چاہیے۔ آبادی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو اندازے ہیں کہ 2050 میں ملک کی آبادی 50 کروڑ ہوگی، اگر آبادی جب 50 کروڑ ہو جائے گی تو پھر جو حال ہوگا اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ تمام صوبوں میں ایک جیسا نصاب ضروری ہے، این ایف سی کو ختم کرنے کی بات تو ابھی تک نہیں سنی، قرض کی اقساط اور دفاعی اخراجات ادا کرنے کے بعد وفاق کے پاس تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہوتے، وفاق کو قرض لے کر معاملات کو چلانا پڑتا ہے۔ (ن) لیگی رہنما نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت سب کو منانے کا ارادہ ہے، وہ ایک مدبر، منجھے ہوئے سیاستدان اور معاملات کی گہرائی کو سمجھتے ہیں، ان کی مشاورت اور ساتھ ہونا اہمیت کا حامل ہوگا، حکومت کی پوری کوشش ہوگی وہ ان کو ساتھ ملائے۔ یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ سے سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق افواہیں زیر گردش تھیں، نئی ترمیم میں وفاق کی جانب سے صوبوں کو دیے جانے والے این ایف سی ایوارڈ (مالیاتی شیئر) کو ختم کرنے کے حوالے سے بھی افواہیں زیر گردش تھیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سینیٹ میں بھی 26 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی، جس کے حق میں 65 اور مخالفت میں 4 ارکان نے ووٹ دیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے خوشگوار تعلقات پر سوال اٹھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے, 21 اکتوبر 2024 کو صدر مملکت کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیاتھا قبل ازیں، گزشتہ روز چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں ملک کے ایوان بالا نے 26ویں آئینی ترمیمی بل 2 تہائی اکثریت سے منظور کرلیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26آئین ترمیم پر ووٹنگ کی تحریک پیش کی تھی، جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، اس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا، مہمانوں کی گیلری خالی کروانےکی ہدایت کی تھی۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 75 کے تحت وزیراعظم پاکستان نے منظور کردہ 26 ویں آئینی ترمیمی ایکٹ 2024 کی سمری کو دستخط کے لیے صدر پاکستان کو بھیج دیا تھا۔سینیٹ کے بعد 26ویں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے بھی پیر کو علی الصبح دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا تھا، جس کا نوٹی فکیشن قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری کر دیا گیا تھا صدر مملکت آصف علی زرداری نے 26ویں آئینی ترمیم پر دستخط کردیے اور گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد 26ویں آئینی ترمیم بطور قانون نافذ ہوگئی تھی آئینی ترمیم کے مطابق نئے چیف جسٹس کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوا تھا۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کئی گھنٹے تاخیر کے بعد رات ساڑھے 11بجے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا تھاجسے تقریباً رات 11 بج کر 58 منٹ پر ملتوی کر دیا گیاتھا، اس کے بعد اجلاس کا دوبارہ آغاز 12 بج کر 5 منٹ پر ہوا تھااور یہ پیر کی صبح سوا 5 بجے تک جاری رہاتھا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی تھی تحریک کی منظوری کے لیے 225 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیاتھا۔ اس کے بعد ترمیم کی شق وار منظوری دی گئی تھی ، مبینہ طور پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 4 آزاد ارکین نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا، عثمان علی، مبارک زیب خان، ظہورقریشی، اورنگزیب کھچی اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری الیاس نے ترامیم کےحق میں ووٹ دیاتھا بل کی منظوری کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ملک میں لوگ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں، آج ایک تاریخی دن ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ آج آئین میں 26 ویں ترمیم ہوئی ہے، حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا تھا، وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیمی بل 2 تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا تھا۔ سینیٹ کے 65 ارکان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ سینیٹ کے 4 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا بل کی منظوری کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاتھا کہ ملک میں لوگ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں، آج ایک تاریخی دن ہے، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی ہے۔ آج آئین میں 26 ویں ترمیم ہوئی ہے، حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا تھا، وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج آئین میں 26ویں ترمیم ہوئی، ایک پاناما تھا جو ختم ہوگیا اقامہ پر سزا دی گئی، آج میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، ماضی میں جو ہوا اب کسی وزیراعظم کو گھر نہیں بھیجا جاسکے گا۔ آئینی ترمیم بل کی منظوری پر تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کاش پی ٹی آئی بھی اس میں شامل ہوتی تو بہت اچھا ہوتا حکومت کو بل کی منظوری کرانے اور اسے قانون بنانے کے لیے 224 ووٹ درکار تھے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں 111، پیپلزپارٹی کی 69 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کی 22، مسلم لیگ (ق) 5، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 اراکین ہیں جب کہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن ہے۔
قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی، اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ 2006 میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ ہوا، اس معاہدے کے بہت سارے نکات پر عمل ہوگیا۔ انہوں نے کہا تھاکہ بازو دبا کے 19 ویں ترمیم کروائی گئی، ہم نے 8 صفر سے کچھ تعیناتیاں ریجیکٹ کیں، ہماری سفارشات کو پرے پھینکا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم میں وزیراعظم، بلاول بھٹو زرداری سمیت سب نے کام کیا، خورشید شاہ نے خصوصی کمیٹی کی سربراہی کی، میں تمام اتحادیوں کا شکریہ ادا کروں گا، مولانا فضل الرحمٰن کا کردار بھی قابل تحسین رہا۔ اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن قومی اسمبلی میں پہنچے جہاں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سے مصافحہ کیاتھا۔ وزیر قانون نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا تھاکہ تین سینئر موسٹ ججز میں سے پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی نامزدگی کرے گی، کچھ ترامیم جے یو آئی کی طرف سے پیش کی گئیں، ان ترامیم کو حکومتی اتحاد نے سینیٹ میں سپورٹ کیا، آرٹیکل 81 میں کچھ ترامیم کی گئیں۔ اعظم نذیر نے کہا تھاکہ تین 3 سینئر ترین ججز میں سے پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی نامزدگی کرےگی، کچھ ترامیم جے یو آئی کی طرف سے پیش کی گئیں، ان ترامیم کو حکومتی اتحاد نے سینیٹ میں سپورٹ کیا، آرٹیکل 81 میں کچھ ترامیم کی گئیں۔ وزیر قانون کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیاتھا۔
بعد ازاں اسپیکر ایازصادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہاتھا کہ آئینی ترمیم کی منظوری میں سب سے زیادہ کردار فضل الرحمٰن کا ہے، سیاست میں آصف زرداری کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کو مانتا ہوں، مولانا فضل الرحمٰن کا اہم کردار ہے یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ بلاول بھٹو نے کہاتھا کہ بل میں سب سے زیادہ میری محنت نہیں، مولانا فضل الرحمٰن کی ہے، میثاق جمہوریت پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے، بے شک اپوزیشن اس بل کو ووٹ نہ دیں یہ ان کا حق ہے، ہمارے بھائی ووٹ دیں یا نہیں ان کی بھی سیاسی کامیابی ہے،۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکہ 1958 میں پڑا، پاکستان میں 1958 میں پہلا آئینی حادثہ ہوا، اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکہ 1958 میں پڑا، پاکستان میں 1958 میں پہلا آئینی حادثہ ہواتھاآئین کی بات کرنے والوں کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، آئین کی بات کرنے والوں کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، سیاستدانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ باعزت طریقے سے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ 26 ویں ترمیم کا واحد مقصد اس ایوان کے وقار اور عظمت کو بحال کرنا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ واحد ہیں جنہوں نے عدلیہ کی عزت بحال کی، سیاست دانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ نے منظور کرلیا ہے۔ ہم میثاق جمہوریت کی اصل روح کو بحال کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور مولانافضل الرحمٰن کے بھی میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں، اس ایوان کی تمام پارٹیوں کے میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں، عدلیہ میں 26 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، دنیا میں 144 ویں نمبر پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے 17، 18 لوگ آسمان سے آئے کہ احتساب نہیں ہوسکتا، اتنا آزاد نہیں کرنا چاہیے تھا کہ وہ ہماری آزادی چھین لیں، قید سیاستدان کاٹیں، شہید سیاستدان ہوں، احتساب بھی سیاستدان بھگتیں، ہم اس آئینی ترمیم کے ذریعے ایوان کو بااختیار بنا رہے ہیں۔ ہم میثاق جمہوریت کی اصل روح کو بحال کررہے ہیں،
خواجہ آصف کی تقریر کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ ’میں چاہتا تھا کہ خواجہ صاحب اپنی تقریر کے اختتام پر ایک چھوٹا سا شعر پڑھ دیں،جو میں لکھ کر انہیں دینا چاہ رہا تھا لیکن انہوں نے جلدی سے اپنی تقریر ختم کردی‘۔ نواز شریف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاتھا کہ ’عدلیہ کے ہاتھوں جو دکھ ہم نے اٹھائے ہیں تو عدلیہ کے کردار پر ایک شعر ہے‘، پھر انہوں نے شعر پڑھا؛ ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہوگا, زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا, جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں, جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہوگا تقریر ختم ہونے کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے میاں نواز شریف کے شعر پڑھنے پر ازراہ تفنن کہا’ نواز شریف نے جو شعر پڑھا ہے وہ بڑا برموقع اور بر محل پڑھا ہے مگر شعر پڑھتے وقت وزن کا خیال رکھنا ہوتا ہے،اور پھر انہوں نے نواز شریف کے پڑھے ہوئے شعر میں وزن کی ایک غلطی نکالی جس پر ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا۔ بعد ازاں ایوان سے اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میری تقریر تنقید کے بدلے نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا بھی تذکرہ تھا، میثاق جمہوریت مشکل میں رہنمائی کے لیے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین مقدم ہوگا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جائے،

