LOADING

Type to search

پاکستان

اسلام آباد(اردو ٹائمز) سیرتِ نبوی ؐ کا اصل ماخذ قرآن کریم

Share

سیرتِ نبوی ؐ کا اصل ماخذ قرآن کریم
(اصغر علی مبارک) سیرتِ نبوی ؐ کا اصل ماخذ قرآن کریم ہے۔سیرت کا علم حاصل کر نا ہر مسلمان پر فرض ہے، اس لیے کہ سعادت دارین،رسولؐ اللہ کی لا ئی ہو ئی ہدایت اور رہنمائی پر مبنی ہے۔کیونکہ ہدایت کا ذریعہ صرف اور صرف اطاعتِ نبوی ہے۔رسولؐ اللہ کی ولا دتِ مبارکہ سے لے کر آپؐ کے دنیا سے تشریف لے جا نے تک ان سب کی تفصیل کو اسلامی علو م و فنون کی اصطلاح میں سیرت کہتے ہیں۔سیرت نبوی، پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں آپؐ کے طرز عمل کو کہا جاتا ہے۔اس سال وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے 49 ویں سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا انعقاد اس ماہ مبارک کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ایک کاوش ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کا تبلیغی طریقہ کار تبشیر و انذار پر مبنی تھا۔آپؐ اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں لوگوں کو مجبور کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ رسول اکرمؐ نے مدینہ میں ایک ایسا سماجی نظام تشکیل دیا جو اسلام کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔وزارت مذہبی امور وبین المذاہب کی یہ بھی کوشش ہے کہ ملک کے اندرونی حالات کے پیش نظر مذہبی ہم آہنگی ورواداری ، اخوت و مساوات، احترام انسانیت ، عدم تشدد ، اتحاد واتفاق ،مفاہمتی عمل اور ڈائیلاگ کے کلچر پر مبنی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ رسول اللہؐ کے زمانے میں لڑی گئی جنگوں اور غزوات کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان جنگوں میں آپؐ نے انسانی اقدار کا ایک مجموعہ لوگوں کے سامنے رکھاقرآن مجید پیغمبرؐ کی زندگی کو بہترین نمونہ عمل کے طور پر متعارف کراتا ہے؛ اسی وجہ سے مسلمانوں نے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے مختلف پہلؤوں کی شناخت کے حصول پر توجہ مرکوز کر رکھی ہےسیرت نبوی ایک ایسی اصطلاح ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ کے مختلف پہلؤوں پر مشتمل طرز عمل پر اطلاق آتی ہےعلامہ طباطبائی نے اپنی کتاب “سنن النبی” کے مقدمے میں رسول اللہؐ کی سیرت کو الہی آداب کا مرقع جانا ہے۔ انہوں نے سیرت نبوی پر عمل کرنے اور آپؐ کی سیرت کے ظاہر و باطن سے آراستہ ہونے کو دنیا و آخرت کی بھلائی اور اعلیٰ و ارفع کمال کے حصول کا ذریعہ جانا ہےقرآن نے سورہ احزاب کی آیت21 میں سیرت پیغمبر اسلام کو اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ کتاب “الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم” کے مصنف سید جعفر مرتضیٰ آملی کے مطابق، رسول خداؐ ایک اعلی شخصیت کے مالک انسان ہیں جو تاریخ انسانیت کے تمام لوگوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ کیونکہ آپؐ دیگر انبیاء کی طرح فضیلت، عقل، کمال، حکمت، وقار، علم؛ الغرض تمام انسانی کمالات کا حامل انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری تاریخ اسلام میں مسلمانوں نے سیرت نبوی کی تحریر و نگارش کے سلسلے میں بے حد اہتمام کیا ہے۔
ربیع الاول کا ماہ مبارک تمام مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس ماہ مبارک میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺاس دنیا میں تشریف لائے۔اس سال وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے 49 ویں سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا انعقاد اس ماہ مبارک کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ایک کاوش ہےوزارت مذہبی امور وبین المذاہب کی یہ بھی کوشش ہے کہ ملک کے اندرونی حالات کے پیش نظر مذہبی ہم آہنگی ورواداری ، اخوت و مساوات، احترام انسانیت ، عدم تشدد ، اتحاد واتفاق ،مفاہمتی عمل اور ڈائیلاگ کے کلچر پر مبنی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔عصر حاضر میں بھی سیرہ نبویؐ سے متعلق تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔سیرت نبوی سے متعلق مختلف ممالک میں متعدد کانفرنسیں منعقد ہوئی ہیں, یادر ہےکہ ہر سال وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی جانب سے 12 ربیع الاوّل کو سیرت النبی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتاہے
اللہ کے رسولؐ اپنے دن رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کیا کرتے تھے: ایک حصے کو اللہ کی عبادت کرنے کے لیے مختص کرتے، ایک حصے کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ مختص کرتے اور ایک حصہ اپنے لیے مقرر کرتے۔ اپنے وقت کے حصے سے کچھ وقت عام لوگوں کے لیے دیتے۔ اپنے اصحاب میں سے جو لوگوں کی نسبت زیادہ ہمدرد تھے انہیں بہترین اصحاب قرار دیتے۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے والے اور ان کی مدد کرنے والے آپؐ کے پاس زیادہ محترم تھے۔ مجلس میں بیٹھتے ہوئے اپنے لیے خاص جگہ متعین نہیں کرتے تھے، ہرگز کسی کے ساتھ سختی، بدزبانی، نکتہ چینی اور دنگہ فساد نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی کی بےجا تعریف۔ کسی کو مایوس نہ کرتے۔ جو بھی آپؐ کے دولت سرا آتے ناامید نہیں لوٹتے۔ تین چیزوں سے آپؐ کوسوں دور تھے: کسی کے ساتھ بحث کرنا، زیادہ باتیں کرنا اور خود سے غیر مربوط چیزوں میں مداخلت کرنا۔ تین کام ایسے تھے جنہیں لوگوں کے ساتھ کبھی انجام نہیں دیتے تھے۔ کبھی کسی کی مذمت نہ کرتے، کسی کی ملامت نہ کرتے اور لوگوں کے پوشیدہ عیوب ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرتے۔آنحضرت ؐ کے حا لات زندگی اور اخلاق و عادات بیان کرنے کا نا م سیرت ہے۔آج دنیا کی تمام مسلم زبانوں اور بہت سی غیر مسلم زبانوں میں سیرت کا لفظ سرکارِ دو عا لم ؐ کی مبا رک زندگی کے لیے استعمال ہو تا ہے۔
اسلا می علوم و فنون میں سیرت کا لفظ سب سے پہلے رسولؐ اللہ کے اس طرزِ عمل کے لیے استعما ل کیا گیا جو آپ ؐ نے غیر مسلموں سے معا ملہ کرنے اور جنگوں میں یا صلح اور معاہدات کے معا ملات میں اپنایا۔
شریعت کی اصطلا ح میں سیر ت سے مراد وہ طریقہ ہے جو کفار سے جنگ و جہا د میں اپنا یا جائے۔حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کا جامع و کامل احاطہ کرتی ہے- سیرت نبوی وہ سدا بہار،پاکیزہ ،ہر دلعزیز موضوع ہے جسے شاعر اسلام سیدنا حسان بن ثابت سے لے کر آج تک پوری اسلامی تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے جملہ گوشوں پر مسلسل کہااور لکھا گیا ہے او رمستقبل میں لکھا جاتا رہے گا ایک مسلمان رسولؐ اللہ کی ذاتِ مبا رکہ کو قانون و شریعت کا مآخذ سمجھتا ہے اور رسولؐ اللہ سے محبت ایمان کا عملی تقا ضا حضور ؐ نے فرمایا:”وہ ایمان والا نہیں جو مجھے اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ رکھے“۔اور اس کے ساتھ یہ با ت بھی مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کہ رسولؐ اللہ کی اطا عت ہی میں نجات ہے۔“
”ہدایت کا ذریعہ صرف اور صرف اطاعت ِ نبوی ہے۔“اگر کسی کے لیے کوئی اسوہ حسنہ ہے تو وہ صرف رسولؐ اللہ کی ذات مبارکہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
”یقینا تمہا رے لیے اللہ کے رسولؐ کی ذات کا بہترین نمونہ ہے ہر اس کے لیے جو اللہ سے ملا قات اور آخرت کی اُمید رکھتا اور اللہ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرتا ہے۔“(سور ۃ الا حزاب:21)لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ – (الاحزاب۳۳:۲۱) تمھارے لیے رسولؐ اللہ کی ذات میں ایک اچھا نمونہ ہے۔
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ – (الانبیاء ۲۱:۱۰۷)

اے محمدؐ! ہم نے تو تم کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم۶۸:۴)

اور اے محمدؐ! یقینا تم اخلاق کے بڑے درجے پر ہو۔ رسو لؐ اللہ کی حیا تِ طیبہ میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے رہنما ئی مو جو د ہے چا ہے حاکم ہو یا محکوم۔طالب علم ہو یا استاد گویا آپ ؐ کی سیرت ِ طیبہ ایک انسان ِ کامل کے لیے ہر اعتبا ر سے اعلیٰ درجے کی نا در مثال ہے۔ رسولؐ اللہ کی سیرت کے مطا لعہ سے قرآن مجید اور احا دیث مبارکہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ قرآن مجید کا تعلق سیرت رسولؐ اللہ کے ساتھ بہت گہرا ہے رسولِ رحمت ؐ کے خصا ئص و امتیازات دوسرو ں سے رویہ،معاملا ت،حقوق و فرائض کا تعین کی صحیح معرفت سیرتِ طیبہ کے مطالعہ ہی سے ممکن ہے۔سیرت رسولؐ اللہ کا مطالعہ کرنے سے عقیدہ و ایمان، شریعت، اخلاق، تفسیر، حدیث، صداقت، سیاست،عدالت،دعوت و تربیت اور معاشرت اور مختلف امور کے متعلق بالکل صحیح،مستند اور مفید معلومات حاصل ہو تی ہے۔سیرتِ طیبہ ؐ اور حدیث مبارکہ میں گہرا تعلق ہے سیرت طیبہ کے مطا لعہ سے صحیح احا دیث کی معرفت حاصل ہو تی ہے۔سیرت طیبہ کے مطا لعہ سے دعوتِ اسلامیہ کے تدریجی حالات اور نشیب و فراز کے مراحل سے آگاہی حا صل ہوتی ہے اور ان مشکلا ت و تکا لیف کا پتہ چلتا ہے جن سے رسولؐ اللہ اور صحابہ کرام ؓ کو کلمہ طیبہ کی سربلندی کے لیے گزرنا پڑا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک نسبت کی وجہ سے اُمت کو بھی بہترین امت قراردے دیاگیا اور اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی افضلیت کا اعلان فرمایا ہے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کو رہنمااصول عطا فرمائے بلکہ اپنی امت کو قرآن وسنت کی صورت میں بیش بہاخزانہ عطا فرمایا اگر پاکستان کے تناطر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ ِ کرم اور نگاہ ِ فیض کا ہی نتیجہ تھا کہ مدینہ منورہ کے بعد دوسری نظریاتی مملکتِ خداداد پاکستان نظریہ’’ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آئی- بانیانِ پاکستان کا مقصد صرف ایک خطہ زمین کا حصول نہیں تھا،بلکہ ایسی اسلامی فلاحی مملکت کا قیام تھا جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق حکومت اور نظامِ ہائے حیات کو تشکیل دیا جا سکے- بانیٔ پاکستان محمد علی جناحؒ نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے واضح فرمایا تھاکہ اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح پہلے قابل عمل تھے-میں نہیں سمجھ سکا کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں کیا جائے گا‘‘- اسی طرح قائد اعظمؒ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا تھا کہ ”آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا-ہم نے جمہوریت 1300 سال قبل سیکھ لی تھی“-یعنی 1300سال قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاستِ مدینہ کی صورت میں ہمارے لیے ریاست اور حکمرانی کےاسلامی اصول وضع فرمادیے تھے جن پر ہمیں پاکستان کی تعمیر و تشکیل کرنی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاستِ مدینہ میں لوگوں کو بلاتفریق ِ رنگ و نسل اور مذہب و علاقہ برابر کے انسانی حقوق میسر تھے اور وہاں یکساں معاشی و معاشرتی عدل و انصاف قانون کی حکمران،مساوات،رواداری اور اخوت و برداشت کا بول بالا تھا – ریاستِ مدینہ کا ماڈل ہر طرح سے انسانی خوشحالی و فارغ البالی کی پوری ضمانت دیتا ہے – پاکستان اس وقت کئی طرح کے سیاسی و سماجی اور معاشی ونظریاتی مسائل اور داخلی عدم استحکام سے دوچار ہے پاکستان کے ریاستی نظام اور ریاستی نظم ونسق کو اسلامی اصولوں پر عملاً ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے جس کیلئے ہر فرد کو انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے ملک کے اربابِ اختیار کو اپنے طرزِ حکمرانی کو پاکستان کے خوشحال مستقبل اور ان مقاصد و اہداف پر فوکس کرنا ہوگا جن کیلئے پاکستان حاصل کیا گیا ہے سیرت النبی سے رہنمائی لیتے ہوئے قرآن وسُنت کے مخالف قوانین سے اعراض کرتے ہوئے پاکستان اپنے موجودہ داخلی وخارجی مسائل اور چیلنجز سے بہتر انداز میں نمٹ سکتا ہے بشرطیکہ ہم ہر شعبے میں اپنی نوجوان نسل کو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے تیار کریں اورانہیں نظریہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ‘‘ پر قائم ریاستِ پاکستان کا حقیقی وفادار بنائیں کیونکہ یہی استحکام ِ پاکستان اور بقائے پاکستان کی ضمانت ہے-ربیع الاول کی آمد کے ساتھ مسلمانوں میں ایک غیر معمولی جوش دیکھا جاتا ہے، ہر طرف سیرت النبیؐ کے جلسوں کا ایک سماں بندھ جاتا ہے، جگہ جگہ جشن کا منظر نظر آنے لگتاہے، لوگ غیر معمولی جوش وخروش کے ساتھ جلسہ ہائے سیرت میں شرکت کرتے ہیں، ہر محلہ میں محافل میلاد النبیؐ کا انعقاد عمل میں آتا ہے، سیرت النبیؐ کے جلسوں کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن سیرتِ رسولؐ سے متعلق ہماری ذمہ داریاں صرف جلسوں کے انعقاد سے ختم نہیں ہوتیں، سیرتِ رسولؐ سے وابستگی مسلمانوں پر عظیم ذمہ داری عائد کرتی ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے لیے جو نظامِ حیات دیا ہے وہ ایک فطری نظام حیات ہے، اس نظام کے کسی شعبے میں کوئی خلاء نہیں ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، انفرادی ہو یا اجتماعی، جہاں یہ محسوس ہوتا ہو کہ اسلام میں اس کے متعلق ہدایات موجود نہیں ہیں، اسلام نے اگر کسی معاملے کے متعلق براہ راست ہدایات نہیں دیں تو ایسے اصول و ضوابط دیے ہیں جن سے ان معاملات کا حل اخذ کیا جا سکتا ہے اور ان کے متعلق راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے، یوں انسانی زندگی کا کوئی شعبہ خدا و رسول کی رہنمائی اور ہدایت سے خالی نہیں رہنے دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بروز پیر12ربیع الاوّل عام الفیل پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کا خطاب دیا۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اْمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے،اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریعی دورنبوت کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اْمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آمد سے لسانی، علاقائی، نسلی اور قومی چوہدراہٹ کے بُت پاش پاش کر دیئے گئے، افتادہ و پسماندہ طبقات کو جتنا تحفظ و احترام رسولِ رحمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا دنیا کے کسی بھی آئین و قانون میں اسکی نظیر نہیں ملتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر پہلو روشن، تابندہ، رخشندہ، درخشندہ اور چمکدار نظر آتا ہے‘

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *