اسلام آباد(اردوٹائمز) اقوام متحدہ سے ٹی ٹی پی سب سے بڑا دہشت گرد گروپ قرار
Share

اقوام متحدہ کی جانب سے ٹی ٹی پی افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروپ قرار دیاہےافغانستان پاکستان کو درپیش دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے.کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور افغانوں کو استعمال کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان کا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے، جسے افغان طالبان اور القاعدہ دہشت گرد نیٹ ورک کے دھڑوں کی جانب سے آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان کی جانب سے حالیہ دہشت گردی کے حملوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے دعوے سے بھی مطابقت رکھتی ہے، اس بات کو یاد رکھنا چاہیےکہ بنوں چھاؤنی پر دہشت گردوں کے حملے میں پاک فوج کے 8 بہادر جوان شہید ہوئے جبکہ 10 دہشت گرد جہنم واصل کردیئےگئے ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 15 جولائی کی صبح 10 دہشت گردوں کے گروپ نے بنوں چھاؤنی پر حملہ کیا تو سیکیورٹی فورسز نے ان کی چھاؤنی میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنا دی۔ دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چھاؤنی کی دیوار سے ٹکرا دی تھی جس کے باعث خودکش دھماکے میں 8 بہادر جوان شہید ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں نائب صوبیدار محمد شہزاد، حوالدار ظل حسین، حوالدار شہزاد احمد، سپاہی اشفاق حسین خان، سپاہی سبحان مجید، سپاہی امتیاز خان، سپاہی ارسلان اسلم اور ایف سی کے لانس نائیک سبز علی شامل تھے۔ کلیئرنس آپریشن میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور تمام 10 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردی کی یہ گھناؤنی کارروائی حافظ گل بہادر گروپ نے کی جو کہ افغانستان سے کام کرتا ہے۔ یہ گروپ ماضی میں بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے، افغانستان کی عبوری حکومت ایسے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔ پاک فوج کی جانب سے کہا گیا کہ مسلح افواج دہشت گردی کی اس لعنت کے خلاف مادرِ وطن اور اس کی عوام کا دفاع کرتی رہیں گی، افغانستان سے آنے والے ان خطرات کے خلاف مناسب سمجھے جانے والے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔ سینئر پاکستانی کالم نگار اصغر علی مبارک نے گزشتہ روز بریفنگ کے دوران ترجمان وزارت خارجہ سے سوال کیا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان افغان لوگوں سے مدد مانگ رہے ہیں جو اس میں ملوث اور اس کی حمایت کر تے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ وزارت خارجہ میں طلب کیے گئے افغان سفیر سے ہمارے مطالبات کیا تھے؟ کیا پاکستان اس مسئلے کو اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل جیسے کسی اور فورم پر لے جانا پسند کرے گا؟ جواب پر وزارت خارجہ پاکستان کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ بنوں کنٹونمنٹ پر دہشت گرد حملے پر پاکستان نے افغان ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو طلب کیا اس حملے کے ماسٹر مائنڈ اور حافظ گل بہادر گروپ کے خلاف سنجیدہ کارروائی کرنے کا کہا ہے ۔ہم نے افغان انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہ کے خلا ف فوری اور موثر کاروائی کرے ، پاکستان نے گزشتہ کئی ماہ میں متعدد بار افغان انتظامیہ سے رابطے رکھے ،ان رابطوں میں افغان گروہوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے حوالے معاملات افغان انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے ،افغان حکومت کو ان دہشت گرد گروہوں اور ان کے لیڈرز کے خلاف فوری کارروائی کرنا چاہیے، افغانستان سے امید ہے کہ وہ گل بہادر گروپ اور بنوں حملے کے سرغنہ کے خلاف کارروائی کریں گے ۔ ہم نے ان پر واضح کیا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ افغانستان ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر، ٹھوس اور مضبوط کارروائی کرے ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے بنوں کنٹونمنٹ حملے پر افغانستان کو احتجاجی مراسلہ جاری کیا۔ مراسلے میں بنوں میں 15 جولائی کیدہشتگرد حملے کی شدید مذمت کی گئی دہشت گرد حملے میں 8 سکیورٹی اہلکار شہید اور کئی زخمی ہوئے، دہشت گرد حملہ افغانستان میں مقیم حافظ گل بہادر گروپ نے کیا، حافظ گل بہادرگروپ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مل کرپاکستان میں متعدد دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے، حملوں میں سیکڑوں شہری اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار شہید ہوئے۔ افغان عبوری حکومت بنوں حملے کے ذمہ داروں کیخلاف فوری اور مؤثر کارروائی کرے، افغان عبوری حکومت افغان سرزمین کوپاکستان میں ایسے حملوں میں استعمال ہونے سے روکے۔ بنوں کنٹونمنٹ حملہ علاقائی امن وسلامتی کو درپیش دہشت گردی کے سنگین خطرے کی ایک اوریاد دہانی ہے پاکستان دہشت گردی کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کے مطالبے کا اعادہ کرتا ہے،پاکستان دہشتگردی سے نمٹنے اور سلامتی برقرار رکھنے کے عزم پر ثابت قدم ہے۔وزارت خارجہ پاکستان کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے ٹی ٹی پی پاکستانیوں اور یہاں موجود غیر ملکیوں کے قتل میں ملوث ہے اور حکومت کا ’ٹی ٹی پی سے کسی قسم کے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ افغان حکام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کریں گے جنہوں نے افغانستان کے اندر پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور وہاں کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔پاکستانی حکومت کے عہدیدار حالیہ مہینوں میں متعدد بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی ملک میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے۔یاد رہے کہ میرے چھوٹے بھائی مظہر علی مبارک کو ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے 25 دسمبر 2013 کو راولپنڈی میں ایک دہشت گرد حملے میں شہید کر دیا تھا۔رواں سال مارچ میں پاکستان کے علاقے بشام میں ایک بس پر خودکش حملے میں پانچ چینی انجینئرز مارے گئے تھے اور پاکستانی حکام کی طرف سے کہا گیا کہ چینی انجینئرز پر حملے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی گئی , رواں سال مارچ میں پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں زیادہ تر دہشت گردی افغان سرزمین سے ہو رہی ہے جنہیں ’یہاں بھی پناہ گاہیں میسر ہیں۔ پاکستانی کی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی کہا گیا تھا کہ ’پاکستان افغانستان کے عوام کا بہت احترام کرتا ہے، تاہم افغانستان میں برسراقتدار لوگوں میں سے بعض عناصر فعال طور پر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں اور اسے پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جیسے کہ بشام بم دھماکے، جس میں 5 چینی انجینئرز اور ان کے پاکستانی ڈرائیور کی جانیں گئیں، رپورٹ میں اس خاص واقعے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی داعش اور القاعدہ/طالبان سے متعلق مانیٹرنگ ٹیم کی 15ویں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروپ کے طور پر تصور نہیں کرتے، ان کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔ لگ بھگ 6 ہزار سے 6 ہزار 500 جنگجوؤں کا اندازہ لگاتے ہوئے رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ کہ کالعدم ٹی ٹی پی اب ان دو درجن یا اس سے زیادہ گروپوں میں سب سے بڑا ہے، جنہیں طالبان حکومت کے دور میں آزادی حاصل ہے۔ اس رپورٹ سے اس پاکستان کے مؤقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ افغانستان پاکستان کو درپیش دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے، جسے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ محسن نقوی جیسے حکام نے بار بار دہرایا ہے۔
یاد رہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان اور افغانستان میں قائم ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو 2007 میں تشکیل دی گئی تھی۔ ٹی ٹی پی کا مقصد پاکستانی حکومت کو صوبہ خیبر پختونخواہ جو باضابطہ طور پر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات ہے خیبر پختونخواہ سے باہر ڈھکیلنا اور شرعی قانون قائم کرنا ہے۔ دہشت گردی ٹی ٹی پی القاعدہ سے نظریاتی رہنمائی حاصل کرتی ہے، جب کہ القاعدہ کے عناصر کچھ حد تک ٹی ٹی پی پر انحصار کرتے ہیں تاکہ افغانستان –پاکستان سرحد کے ساتھ والے علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں ہوں۔ اس انتظام نے ٹی ٹی پی کوالقاعدہ کے عالمی دہشت گرد نیٹ ورک اور اس کے ارکان کی آپریشنل مہارت دونوں تک رسائی دی ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستانی اور امریکی مفادات کے خلاف متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، بشمول دسمبر 2009 میں خوست، افغانستان میں امریکی فوجی اڈے پر خودکش حملہ جس میں 7 امریکی شہری ہلاک ہوئے، نیز اپریل 2010 میں امریکی قونصل خانے کے خلاف خودکش حملہ۔ پشاور، پاکستان میں جس نے چھ پاکستانی شہریوں کو ہلاک کیا۔ ٹی ٹی پی پر 2007 میں سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ ٹی ٹی پی نے فیصل شہزاد کی یکم مئی 2010 کو نیویارک شہر کے ٹائمز اسکوائر میں دھماکہ خیز مواد سے دھماکہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہدایت اور سہولت فراہم کی۔ 1 ستمبر 2010 کو امریکی محکمہ خارجہ نے امیگریشن کے سیکشن 219 کے تحت ٹی ٹی پی کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ نیشنلٹی ایکٹ اور ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے مطابق بطور خاص نامزد عالمی دہشت گرد تنظیم ہے۔ نتیجے کے طور پر، ٹی ٹی پی کی تمام جائیدادیں اور امریکی دائرہ اختیار سے مشروط جائیداد میں سود مسدود ہیں، اور امریکی افراد کو عام طور پر ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی لین دین میں ملوث ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ جان بوجھ کر ٹی ٹی پی کو مادی مدد یا وسائل فراہم کرنا، یا اس کی کوشش یا سازش کرنا جرم ہے۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ میں افغان طالبان کی پاکستان کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کے خطرے کو کم کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے حملوں کی ایڈہاک حمایت کو بیان کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں 28 مئی 2024 تک کے اعداد و شمار شامل ہیں، کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف حملے تیز کر دیے ہیں، جو 2021 میں 573 سے بڑھ کر 2022 میں 715 اور 2023 میں 1,210 ہو گئے جبکہ یہ رجحان 2024 میں بھی جاری ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور افغانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ القاعدہ کے سیل متعدد افغان صوبوں میں کام کر رہے ہیں، خاص طور پر جنوب مشرق میں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گروپ سے وابستہ زیادہ تر سہولیات کا مقصد کالعدم ٹی ٹی پی کے کارندوں کے ساتھ مقامی جنگجوؤں کو تربیت دینا ہے۔
القاعدہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حملوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کی مدد کرتا ہے، جس کی تحریک جہاد پاکستان نے ذمہ داری قبول کی ہے تاکہ ڈی فیکٹو (افغان) حکام پر دباؤ کم کیا جا سکے۔ پاکستانی فوج اور افغان جنگجوؤں کے درمیان ستمبر 2023 کی جھڑپ کو رپورٹ نے گزشتہ سال کا کالعدم’ ٹی ٹی پی کا سب سے بڑا حملہ’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد نے شمال مغربی چترال میں دو فوجی چوکیوں پر ایک مربوط حملہ کیا تو انہیں القاعدہ کے ایک بڑے دستے نے مدد فراہم کی۔رپورٹ میں پاکستان کی اس تشویش کی بھی حمایت کی گئی ہے کہ نیٹو کے خاص طور پر رات میں دیکھنے کی صلاحیت والے ہتھیار طالبان کے قبضے کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی کو فراہم کیے گئے ہیں، جس سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی’داعش اور القاعدہ/طالبان مانیٹرنگ ٹیم‘ کی جانب سے سلامتی کونسل کی کمیٹی کویکم فروری 2024 کو پیش کی گئی 33 ویں رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیاتھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے افغان طالبان کے علاوہ القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند دھڑوں سے واضح حمایت حاصل رہی ہے۔ اس تعاون میں نہ صرف اسلحہ اور سازوسامان کی فراہمی بلکہ پاکستان کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کے لیے عملاً زمینی مدد بھی شامل ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر متعدد دہشت گرد حملوں کی ذمہ دار رہی ہے اور پاکستان نے متعدد بار اِس کے خلاف افغان طالبان کی غیرفعال حکمت عملی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکامی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کا باعث بنی ہے، کالعدم ٹی ٹی پی سے نمٹنے میں افغانستان کی ہچکچاہٹ کو پاکستان اپنی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افغان طالبان کی جانب کالعدم ٹی ٹی پی کی افغانستان سے باہر سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کے سرکاری مؤقف کے باوجود کالعدم ٹی ٹی پی کے بہت سے جنگجو کسی بھی قسم کے نتائج کے خوف کے بغیر پاکستان میں سرحد پار حملوں میں مصروف ہیں۔
اِس میں بتایا گیا تھاکہ (افغان) طالبان کے کچھ ارکان اسے ایک مقدس فریضہ سمجھتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کی صفوں میں شامل ہو گئے ہیں اور اُن کی کارروائیوں کو تقویت دے رہے ہیں۔مزید برآں کالعدم ٹی ٹی پی کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کو افغان طالبان کی جانب سے باقاعدہ امدادی پیکجز موصول ہوتے ہیں جو کہ بھرپور تعاون کی نشاندہی کرتا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے 70 سے 200 کے درمیان جنگجؤں کو عارضی طور پر قید اور انہیں پاک-افغان سرحدی علاقوں سے دور شمال کی جانب منتقل کرنے کی حکمت عملی کو کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا دباؤ کم کرنے کی کوشش سمجھا جاتا ہے۔رپورٹ میں یاددہانی کروائی گئی تھی کہ 2023 کے وسط میں کالعدم ٹی ٹی پی نے خیبرپختونخوا میں ایک نیا اڈہ قائم کیا، جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو خودکش بمبار بننے کی تربیت دی گئی۔ مزید برآں اِس خطے میں القاعدہ نے کالعدم ٹی ٹی پی کو تربیت، نظریاتی رہنمائی اور مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جوکہ ان عسکریت پسند نیٹ ورکس کے درمیان باہمی وابستگی کی نوعیت کو واضح کرتا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کو وسائل مختص کرنے کے لیے القاعدہ کے احکامات اِس گہرے تعاون کی نشاندہی کرتے ہیں جس کا ہدف خطے کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ مزید برآں کالعدم ٹی ٹی پی کو بظاہر نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کی تشکیل، دیگر گروہ مثلاً ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ/ ترکستان اسلامک پارٹی (ای ٹی آئی ایم/ ٹی آئی پی) کی شمولیت اور مجید بریگیڈ کی کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مشترکہ کارروائیاں کثیر الجہتی اور عالمی سطح کے خطرات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ/ترکستان اسلامک پارٹی (ای ٹی آئی ایم/ ٹی آئی پی) نے اپنا گڑھ صوبہ بدخشاں سے صوبہ بغلان منتقل کر دیا ہے اور مختلف علاقوں میں اپنی انتظامی رسائی کو وسعت دی ہے۔ یہ گروہ اپنی ریزرو فورسز کے لیے نوجوانوں کو تربیت دینے میں پوری شدت سے مصروف ہے اور خاص طور پر خواتین کی بھرتیوں اور ٹریننگ میں اضافہ کررہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھی کہ ای ٹی آئی ایم/ ٹی آئی پی کے دیگر شدت پسند گروہوں بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ تربیت اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی میں تعاون کے سبب خطے میں موجود دیگر ممالک کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ القاعدہ کی جانب سے تربیت اور نظریاتی رہنمائی فراہم کرکے ای ٹی آئی ایم/ ٹی آئی پی کو تقویت دی جارہی ہے۔ دریں اثنا یہ بتایا گیا تھا کہ بلوچستان میں شورش میں ملوث مجید بریگیڈ کے پاس تقریباً 60 سے 80 جنگجو ہیں، اس کی حکمت عملی ’خواتین خودکش بمباروں کی بھرتی‘ پر مرکوز ہے۔ یہ گروہ کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش-خراسان کے ساتھ تربیت، اسلحہ کی خریداری، خفیہ معلومات کے تبادلے اور مربوط کارروائیوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے جانا جاتا ہے، واضح رہے کہ مجید بریگیڈ نے پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور چینی اہلکاروں پر متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔یاد رہے کہ7 مئی 2023 کوآرمی چیف جنرل عاصم منیر سے قائم مقام افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ملاقات کی تھی آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا، جن میں علاقائی سلامتی، سرحدی انتظام اور موجودہ سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کے لیے ایک باضابطہ دوطرفہ سیکیورٹی میکانزم بنانے سے متعلق پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیاتھا ۔آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے مستحکم، پرامن اور خوشحال افغانستان کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیاتھا ۔ بیان میں مزید کہا گیاتھا کہ افغان وزیر خارجہ نے افغانستان کے عوام کے لیے پاکستان کی حمایت کو سراہا اور اس اہم کردار کو تسلیم کیا جو افغانستان میں امن اور ترقی میں سہولت کاری کے لیے پاکستان ادا کر رہا ہے۔
8 مئی 2023 کوافغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا تھا کہ کہ ہم نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کی ہے، دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا ہے تاکہ مسئلے کا حل نکلے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کوئی 2 سال پہلے بننے والی تنظیم نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے مطابق 80 ہزار افراد کو کالعدم ٹی ٹی پی نے مارا ہے۔ ہم نے کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے موجودہ اور گزشتہ پاکستانی حکومتوں سے گفت و شنید کی ہے