LOADING

Type to search

پاکستان تازہ ترین

اسلام آباد(اردو ٹائمز) پاک فوج عوام کی فلاح و بہبود کیلئے پُر عزم

Share

ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ پاک فوج کا نصب العین ہے ,
پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس دنیا کی بہترین پروفشینلز، بہادر، محنتی اور جفاکش فوج موجود ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک پاکستان کی نہ صرف جغرافیائی بلکہ نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہے۔
گوکہ نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہمارے سیاستدانوں،علماء اور صحافیوں کا کام ہے مگر یہ بھی ذمہ داری کسی حد تک فوج کے کاندھوں پر آن پڑی ہے بہت سی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ فوج نے یہ ذمہ داری بھی بخوب نبھارہی ہے اور کسی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہے۔
کوئی قوم بھی اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتی جب تک وہ اپنے ملک اور نظریئے کی جان سے بڑھ کر حفاظت نہیں کرتی۔
زندہ قومیں جب تک اپنی تاریخ کو یاد رکھتی ہیں کوئی بھی جارح انہیں شکست سے دوچار نہیں کر سکتا,
دْنیا کی ہر قوم پر کٹھن وقت آیا ہوگا لیکن زندہ قومیں اتحاد، یکجہتی اور بے مثال جذبے سے تاریخ میں لازوال نقوش قائم کرتی ہیں جنہیں صدیاں بھی ختم کرنے سے قاصر ہوتی ہیں,
یوم آزادی کادن ہر سال منایا جاتا ہے۔
یوم آزادی کا دن منانے کا مقصد شہداء اوراسلاف کی قربانیوں پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنا ہوتا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آزادی پریڈ منعقد کی گئی جس میں پاک فوج کے دستوں نے مادر وطن کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر آزادی پریڈ کے مہمان خصوصی تھے۔تقریب سے خطاب میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ قوم کو 76 واں جشن آزادی مبارک ہو، پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا اور آج کا دن مادر وطن کے دفاع کیلئے ہمارے عزم کی تجدید کا دن ہے۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے کہ ہم قائد اعظم کے قول کہ “دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو مٹا نہیں سکتی” کے امین ہیں، میں اس موقع پر اپنی عظیم قوم کو امید کا پیغام دیتا ہوں، ملکی خودمختاری اور سالمیت کی خاطر ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، پاکستان آرمی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے پُر عزم ہے۔ پاکستان دو قومی نظریے پر بنا، افواج پاکستان اور عوام ایک تھے ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہم 76 برس سے آزادی کا دن منانے کی روایت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان بے شمار وسائل اور ان گنت نعمتوں سے مالامال سرزمین ہے، قوم اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے، ہماری ترقی ہماری آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کی ضامن ہوگی اور ہماری ترقی ہمارے اسلاف اور عوام کے خوابوں کی تعبیر ہو گی۔
جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ آج کا دن پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے پیغام کی روح کو سمجھنے پر زور دیتا ہے، ہم ایک اہم اور کٹھن دور سے گزر رہے ہیں، ہمیں شدت پسندی اور جنگی جنون جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں پاکستان کو کمزور کرنے کی خواہش رکھنے والی ناکام قوتوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قائد اعظم کے قول کہ “دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو مٹا نہیں سکتی” کے امین ہیں، میں اس موقع پر اپنی عظیم قوم کو امید کا پیغام دیتا ہوں، ملکی خودمختاری اور سالمیت کی خاطر ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، پاکستان آرمی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے پُر عزم ہے۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ قوم اور فوج میں دراڑ ڈالنے کی مذموم کوششیں ناکام ہونگی، ہمیں جغرافیائی، سیاسی تنازعات، طاقت کے حصول کی کشمکش جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، قوم ان چیلنجز خواہ وہ بیرونی ہوں یا اندرونی سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ، صلاحیت اور قابلیت رکھتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خوف اور مایوسی پھیلانے والوں کا منفی پروپیگنڈا مسترد کرنا ہوگا، یہ عناصر معاشرے میں نا امیدی پھیلانے کی ناکام کوششوں میں سرگرم ہیں، کوئی ملک اور قوم چیلنجز سے نبرد آزما ہوئے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ قوم کو 76 واں جشن آزادی مبارک ہو، پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا اور آج کا دن مادر وطن کے دفاع کیلئے ہمارے عزم کی تجدید کا دن ہے, پاک فوج دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے نظرآتی ہے جنرل عاصم منیر نے بانیانِ ملت کو76 ویں آزادی کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنی محنت سے حاصل کی گئی آزادی کا دفاع کرنا جانتا ہے۔بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنی آزادی کا دفاع کرنا جانتا ہے اور جارحانہ عزائم سے نہیں گھبرائے گا، ہمیں آزادی ایک عظیم جدوجہد کے بعد ملی اور ہم اس کا دفاع کرنا جانتے ہیں آرمی چیف نے کہا کہ بھارت کبھی بھی نظریہ پاکستان سے مفاہمت نہیں کر سکا اور آج یہ علاقائی امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہم نے ایک عظیم جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی اور ہم اس کا دفاع کرنا بھی جانتے ہیں۔ ہمارے سخت حریف کا اسٹریٹیجک حساب کتاب، جو اس کے بڑے عزائم کی وجہ سے بگڑ چکا ہے، ایک عظیم طاقت ہونے کا بھرم رکھتا ہے اور ہندوتوا پر مبنی ہائپر نیشنلزم سے اندھا ہو چکا ہے۔ دنیا کو اس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم کبھی بھی کسی جارحانہ عزائم سے مجبور نہیں ہوں گے اور نہ ہی یہ خطہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس طرح کی دشمنی کا متحمل ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے بھارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’بدقسمتی سے ہمارا مخالف معمولی سیاسی فائدے کے لیے ہمارے خلاف اپنے مذموم عزائم کو آگے بڑھا رہا ہے۔ میں عاجزی کے ساتھ انہیں ان کی گزشتہ پریشانی کی یاد دلاؤں گا، جب پچھلی بار انہوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں منعقدہ ’آزادی پریڈ‘ کی تقریب سے خطاب کے دوران آرمی چیف نے یوم آزادی کی اہمیت اور پاکستان کی تخلیق کے پس پردہ جذبے پر زور دیا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے۔جغرافیائی تنازعات سے لے کر اندرونی خطرات تک قوم کو درپیش بے شمار چیلنجز کا اعتراف کرتے ہوئے آرمی چیف نے سخت لہجے میں واضح کیا کہ میں ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ کے الفاظ میں سب کو خبردار کرتا ہوں کہ دنیا میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے، پاک فوج ہر قیمت پر پاکستان کی خودمختاری کے دفاع کے لیے تیار ہے۔انہوں نے اس موقع پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور خطے میں بھارتی اقدامات کے خلاف عالمی برادری کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کیے جانے کی مذمت کی۔ آرمی چیف نے مزید کہا کہ عالمی برادری کا ضمیر اس بات کا ادراک کرے کشمیر میں بھارتی زیادتیوں کا تدارک نہیں کیا جا رہا اور ان کی آزادی اور حق خود ارادیت سے انکار کیا جا رہا ہے۔آرمی چیف کا کہنا تھاکہ قوم اور فوج میں دراڑ ڈالنے کی مذموم کوششیں ناکام ہونگی، ہمیں جغرافیائی، سیاسی تنازعات، طاقت کے حصول کی کشمکش جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، قوم ان چیلنجز خواہ وہ بیرونی ہوں یا اندرونی سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ، صلاحیت اور قابلیت رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خوف اور مایوسی پھیلانے والوں کا منفی پروپیگنڈا مسترد کرنا ہوگا، یہ عناصر معاشرے میں نا امیدی پھیلانے کی ناکام کوششوں میں سرگرم ہیں، کوئی ملک اور قوم چیلنجز سے نبرد آزما ہوئے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ آرمی چیف کا کہنا تھاکہ قوم کو 76 واں جشن آزادی مبارک ہو، پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا اور آج کا دن مادر وطن کے دفاع کیلئے ہمارے عزم کی تجدید کا دن ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم اندرونی اور بیرونی دشمن سے بخوبی آگاہ ہیں، پاکستان کو خوشحال اور مستحکم ملک بنانا ہمارا مشن ہے، افواج پاکستان اور عوام ایک تھے ایک ہیں اور ایک رہیں گے، ہم 76 برس سے آزادی کا دن منانے کی روایت قائم رکھے ہوئے ہیں۔

آرمی چیف کا کہنا تھاکہ پاکستان بے شمار وسائل اور ان گنت نعمتوں سے مالامال سرزمین ہے، قوم اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے، ہماری ترقی ہماری آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کی ضامن ہوگی اور ہماری ترقی ہمارے اسلاف اور عوام کے خوابوں کی تعبیر ہو گی۔

جنرل عاصم منیر کا کہنا تھاکہ آج کا دن پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کے پیغام کی روح کو سمجھنے پر زور دیتا ہے، ہم ایک اہم اور کٹھن دور سے گزر رہے ہیں، ہمیں شدت پسندی اور جنگی جنون جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں پاکستان کو کمزور کرنے کی خواہش رکھنے والی ناکام قوتوں کا سامنا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کشمیری بھائیوں کو افواج پاکستان اور پاکستانی قوم کی طرف سے مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں، عالمی برادری کا ضمیر احساس کرے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا ہمارا ازلی دشمن اپنی نام نہاد اسٹریٹجک اہمیت اور توسیع پسندانہ عزائم کے خواب رکھتا ہے، عالمی برادری ہندوتوا کے کٹر نظریات پر توجہ دے، ماضی میں ان عزائم کی تکمیل کے لیے کی جانے والی مہم جوئی کی ناکامی کو ضرور یاد رکھنا چاہیے۔تقریب میں ملی نغمے پیش کیے گئے اور آخر میں آتشبازی کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔یاد رکھنا چاہیےکہ افواج پاکستان کے عوامی فلاح وسلامتی کے منصوبے آج جاری وساری ہیں پہلی مرتبہ روایتی فوجی سلامتی کو انسانی فلاح و بہبود کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور اقتصادی سلامتی پر بنیادی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے،جس کا نتیجہ لازمی طور پر انسانی سلامتی کو پاکستان میں عمل پیرا کرنے اور ایسی تدابیر کو اپنانے پر مرکوز ہوگا جس سے عوامی معاشی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاسکے..گزشتہ 76 سالوں سے پاکستان قومی سلامتی کی پالیسی کے بغیر موجود تھا، پھر بھی بھارت کے ساتھ چار جنگوں، 1990 کی دہائی میں جوہری تجربات، دہشت گردی کے خلاف جنگ او امریکا کی جانب سے پابندیوں سے بچ گیا کئی معاشی خرابیوں و کوتاہیوں کے باوجود پاکستان بحیثیت ایک خود مختار ’اسلامی‘ ملک کہلانا پسند کرتا ہے،گو کہ اس 76سالہ تاریخ میں قومی سلامتی کے مطالبات کی بنا پر انسانی و عوامی وسائل کے فروغ اور ان کی ترقی پر دھیان نہیں دیا وہ تو بھلا ھو پاک فوج کا جس کی قیادت کی دور اندیشی سے ہر قسم کی بربادی سے ملک بچتارہاہے افواج پاکستان کے عوامی فلاح وسلامتی کے منصوبے آج جاری وساری ہیں 62 صفحات پر مشتمل این ایس پی کا غیر مصرحہ حصہ قومی سلامتی کے فریم ورک کی وضاحت کرتا ہے، اس کے نفاذ کے اصولوں کو بیان کرتا ہے، قومی ہم آہنگی کو تقویت دینے، ملک کے اقتصادی مستقبل کو محفوظ بنانے، اس کے دفاع، علاقائی سالمیت اور پاکستان داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی کو رہنما اصول دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی بدلتی ہوئی دنیا میں خارجہ پالیسی اور انسانی سلامتی کے لیے رہنما اصول دینے کی بھی کوشش کی گئی۔ ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ظاہر ہوگا کہ جس طرح سے اسے تیار کیا گیا ہے،اس میں ’امن‘، ’جیو اکنامکس‘ اور’مکمل‘ جیسے ظاہری طور پرمتوجہ کرنے والے دعوے ، پوشیدہ معنی اور حکومت کا نقطہ نظر سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ دعویٰ ہے کہ ’تمام اسٹیک ہولڈرز‘ یا شراکت داروں میں اتفاقِ رائے اس پالیسی کا لب لباب ہے، لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر اور ان کا ڈویژن پارلیمنٹ کو ‘تمام اسٹیک ہولڈرز’ کے نظام کا حصہ نہیں مانتے۔ پالیسی گزشتہ 76 سالوں میں پہلی بار تشکیل دی گئی ہے،پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا کہ ’معاشی تحفظ‘ کو یقینی بنائے بغیر ’’روایتی تحفظ‘‘ یعنی دفاع ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روایتی سیکورٹی کے بوجھ تلے ایک کمزور معیشت پاکستان میں پہلے ہی منہدم ہو چکی ہے۔ اور فوجی سیکورٹی بھی بڑھتے ہوئے دباؤ میں آ تی چلی جارہی ہے۔سادہ اور واضح الفاظ میں، انسانی سلامتی، ریاست کی سلامتی کے برعکس، لوگوں کے بنیادی حقوق کی بنیاد پر ان کے تحفظ کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن کسی بھی قسم کی تبدیلی کی اس بنیادی خصوصیت کا ذکر اتفاقی اور سطحی طور پر ہی پالیسی میں کیا گیا ہے، اور وہ بھی دستاویز کے آخری باب میں۔ پانچ ابواب صرف روایتی سلامتی اور اس سے متعلق دیگر معاملات سے متعلق ہیں، ایک اور باب خارجہ پالیسی کا احاطہ کرتا ہے اور ایک باب اقتصادی سلامتی سے متعلق ہے دستاویز میں بلاشبہ پاکستان کے دفاع پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں میں بڑھتے ہوئے عدم توازن پر تشویش بھی ظاہر کی ہے اور معیشت کی ترقی میں ازالہ ضروری شرائط کے طور پر تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگر ایک منحصر اور کمزور معیشت کے تضادات اور مطالبات بنیادی ہیں تو پہلے انہیں درست کرنے کی کوشش کرنی چاہیے پھر منطقی طور پر روایتی سلامتی کے تمام پہلوؤں کو معاشی ضروریات کے تابع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو پرامن بقائے باہم، مفید اقتصادی تعاون، اور طویل وصبر آزما مذاکرات کے ذریعے ہی ’’بنیادی مسائل کی بحالی اور ان کے ممکنہ حل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ تمام پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کے پرامن حل، سرحدوں کے پار باہمی طور پر فائدہ مند تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور اقتصادی باہمی انحصار کو مضبوط بنانے کے لیے اقتصادی ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جیو اکنامکس پورے خطے کے لیے اہم ہے، تو اسے ہر ایک مخالف کی مخالف جغرافیائی۔تزویراتی (جیواسٹریٹجک) ضروریات سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس کا مطلب کسی بھی طرح پاکستان کی علاقائی سالمیت اور آزادی پر آنکھیں بند کرنا نہیں ہے۔ وسیع حفاظتی کاروباروں اور وسیع حفاظتی ایجنڈوں کی اجازت دینے کے بجائے اپنے دفاع کے لیے ایک سرمایہ کاری کا مؤثر طریقہ تلاش کیا جا سکتا ہے تاکہ اسے محدود ذرائع میں رکھا جا سکے۔ پاکستان تب ہی مضبوط ہو سکتا ہے جب اس کے عوام اور آنے والی نسلوں کی انسانی سلامتی اور آزادی محفوظ ہو۔ اقتصادی سلامتی جو بہت بنیادی ضرورت ہے، اسے علاقائی تنازعات کی بجائے علاقائی تعاون اور اقتصادی شراکت داری سے زیادہ فروغ دیا جاسکتا ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کو پائیدار اور شراکتی ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے اہداف کوحاصل کرنے اور عوامی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتصادی تحفظ کی تجویز میں جو بات آسانی سے پوشیدہ رکھی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ وسائل اور آمدنی کیسے اور کہاں سے حاصل ہوںگے اورپاکستانی عوام کے معیار ِزندگی کو بلند کرنے کے لیے انسانی سلامتی کی ترجیحات کے مطابق یہ رقم کیسے تقسیم کی جائے گی۔ پالیسی میں ایک نئے سول- ملٹری شراکت دار ی کے پس منظر میں، نئی سیکیورٹی پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے ایک پوری نئی حکومتی ایجنسی متعارف کرائی گئی ، جو شاید آئینی طور پر حکومت سے زیادہ وسیع اور طاقت ور ہوگی, یاد رکھنا چاہیےکہ پاک فوج عسکریہ پاکستان کی سب سے بڑی شاخ ہے۔ اِس کا سب سے بڑا مقصد مُلک کی ارضی سرحدوں کا دِفاع کرنا ہے۔ پاکستان فوج کا قیام 1947 میں پاکستان کی آزادی پر عمل میں آیا۔ یہ ایک رضاکارپیشہ ور جنگجو قوت ہے
پاک عسکریہ ایک نہایت منظم ادارہ ہے جس میں اختیاری طاقت کا ایک مکمل اور متوازن نظام موجود ہے۔ پاکستانی معاشرے میں پاک عسکریہ کو بے پناہ عزت حاصل ہے۔ عوام اس ادارے کو اپنی حفاظت کا ذمہ دار اور اپنی قربانیوں کا امین تصور کرتی ہے۔
پاک فوج کی تنظیم ایسی ہی ہے جیسا کہ عام طور پر پوری دنیا میں ہے۔ اس کی کمیشنڈ یافتہ عہدے سکینڈ لیفٹینٹ سے شروع ہوتے ہیں۔ پاکستان کے دفاع کا ذمہ دار ادارہ عسکریہ پاکستان یا پاکستان مسلح افواج ہے۔ پاکستان مسلح افواج کو پاکستان کا سب سے منظم اور ترقی یافتہ ادارہ سمجھا جاتا ہے۔
اس کے تین بڑے حصے پاک فوج, پاک فضائیہ اور پاک بحریہ ہیں,افرادی قوت کے لحاظ سے پاکستان فوجی افرادی قوت کے اعتبار سے 7 ویں نمبر پر ہے۔ اگر نیم فوجی اداروں کے افراد بھی شامل کر لیے جائیں تو پاک عسکریہ کی مضبوط افرادی قوت ایک ملین تک پہنچ جاتی ہے۔
یاد ہےکہ پہلی مرتبہ پر یہ تسلیم کیا گیاکہ جب تک آپ عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی نہ بنائیں تب تک آپ قومی ترقی اور قومی دفاع کے مطالبات کو غیر جانبداری کے ساتھ فروغ نہیں دے سکتے۔
گزشتہ 76 برسوں میں جس طرح سیاسی جماعتوں نے ملک کے وسائل کو اپنی ذاتی ترقی کے لیے استعمال کیا ہے اور ایسا نظام بنانے میں کامیاب رہے ہیں جس میں سیاسی اتحاد ہمیشہ سب سے آگے رہے،
افواجِ پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی اور اخُّوت ملی کی مثالی فضا برقرار رکھی ہے۔
افواج پاکستان قومی مساوات و یگانگت کی ایک زندہ تصویر ہیں۔ ان کی صفوں میں ہر صوبے اور خطے کے افرادکی شمولیت کو یقینی بنایا گیا ہے ۔
افواجِ پاکستان کے افسر اور جوان علاقائی و لسانی تعصبات سے بالاتر ہو کر دفاعِ وطن اور مشکل حالات میں فرائض کی ادائیگی کے لئے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ مصروف عمل رہتے ہیں ,
افواج پاکستان اپنے ہموطنوں کے لئے تن من دھن کے ساتھ مصروف خدمت ہیں اور اپنے اعلیٰ نظم و ضبط کی بناء پر قومی وحدت اور ملی اتحاد کے لئے منفرد شناخت رکھتی ہیں
افواج پاکستان کا وقار اور بے لوث خدمات پوری دنیا میں مسّلم ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ افواجِ پاکستان نے ملک کے پس ماندہ علاقوں کی نمائندگی پر بھرپور توجہ دی ہے۔
پاک فوج سینکٹروں نوجوانوں کو فنی تعلیم فراہم کررہی ہے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو کمیشن حاصل کرنے آسانی بہم پہچانے کے لئے آئی ایس ایس بی کے امتحانات کے انتظامات وہیں پر کئے گئے ہیں جس سے بلوچی نوجوان دفاعِ وطن کے لئے کمیشن پا کر افواجِ پاکستان میں شامل ہورہے ہیں۔
فوج جہاں سلامتی کے معاملات کو سنجیدگی سے لیتی ہے، وہیں ان کی توجہ تمام صوبوں کی نمائندگی پر رہتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ہزاروں بلوچ نوجوان فوج میں شامل ہوہے۔ پاک فوج کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں لے کر چلیں ۔ جہاں یہ عمل ان خاندانوں کی معاشی بہتری کے لیے معاون ثابت ہو گا وہیں اس سے بہت سے وسوسے ختم ہو جائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم اتفاق واتحاد اور برداشت کے ایسے ہی جذبے کا مظاہرہ کرے اور مخالف قوتوں کی ہر سازش کو قومی یکجہتی کے جذبے سے مات دے۔ عدم برداشت اور معتصّبانہ سازشوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد سے ہی ہم نہ صرف تعصب کے زہر کا تریاق کر سکتے ہیں بلکہ اخُّوتِ ملی کی ایک عمدہ مثال پیش کر سکتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *